Sunday, May 3, 2015

احمدی کا مبارک امتیازی نام

اے عزیزو اس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا
 کلمہ گو ہو کچھ تو لازم ہے تمہیں خوفِ خدا
انیسویں صدی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ۴؍نومبر ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ ملک میں مردم شماری ہونے والی ہے جس میں ہر فرقہ اپنے لئے جو نام پسند کرتا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں لکھوائے گا۔ اس وقت تک پنجاب اور ہندوستان میں تیس ہزار مخلصین شامل ہوچکے تھے اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس اشتہار میں اعلان فرمایا:
’’و ہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیہ ہے اور جائز ہے کہ احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں۔‘‘
اس نام کا پس منظر یہ بیان فرمایا کہ
’’ہمارے نبی ﷺ کے دو نام تھے ایک محمدﷺ اور ایک احمدﷺ۔۔۔ اسم محمد جلالی نام تھا۔۔۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت ﷺ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے ۔۔۔ اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے‘‘۔ (’اشتہار واجب الاظہار‘ بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ حصہ سوم صفحہ ۳۵۶۔۳۶۶)
۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو دہلی میں ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے، آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھو سمّٰکم المسلمین (الحج:۷۹) کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا:
’’اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آ چکا ہے اسلام کے تہتر فرقے ہوگئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سّب و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو برا کہتے ہیں۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتے ہیں اور پھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلادِ شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لئے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا‘‘۔
مزید ارشاد فرمایا:
’’ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔ اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہوسکتی۔ امام شافعیؒ اور حنبلؒ وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزارہا گندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چاردیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہوسکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں، مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں، ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد ﷺ کے ساتھ اتصال ہے اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت ﷺ کا نام ہے۔اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آج کل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا۔ اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں، وہ احمدی ہیں۔‘‘ (بدر ۳؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲۔۴، بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود ؑ جلد ۴ صفحہ ۵۰۰۔۵۰۲ جدید ایڈیشن)
خدا تعالیٰ نے اس مبارک نام کو قبولیت کا ایسا عالمی شرف بخشا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ مصر سے دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے نام سے ضخیم انسائیکلوپیڈیا شائع ہوئی ہے جس میں الاحمدیہ ہی کے زیر عنوان بہت قیمتی نوٹ چھپا ہے۔ علاوہ ازیں مجلتہ الازھر شعبان ۱۳۷۸ھ (فروری ۱۹۵۹ء) میں مدیر مذہبیات الدکتور محمد عبداللہ کے قلم سے جماعت احمدیہ کے جرمن قرآن پر تبصرہ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے ’’نشرت ھذہ الترجمہ البعثۃ الاحمدیہ‘‘۔
پاکستان میں ’’اردو انسائیکلوپیڈیا‘‘ ، ’’اردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘‘ اور ’’شاہکار انسائیکلوپیڈیا‘‘ بالترتیب فیروز سنز لاہور، غلام علی اینڈ سنز لاہور اور شاہکار بک فاؤنڈیشن کراچی کی طرف سے منظر عام پر آ چکے ہیں ان سب میں احمدی نام موجود ہے۔ حضرت قائد اعظم کی پریس ریلیز اخبار ڈان (DAWN) کی ۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں درج ذیل الفاظ میں چھپی:
"Ahmadiyya Community to support Muslim League"
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھا ’’جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشا کو سمجھا ہے احمدیوں کا اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی‘‘ (’اقبال اور احمدیت صفحہ ۹۰ مرتبہ بشیر احمد ڈار ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور)
پاکستان کے محقق و مؤرخ شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔اے نے ’’موجِ کوثر‘‘ میں، جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت‘‘ میں۔ جناب اصغر علی گھرال صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور نے اپنی کتاب ’’اسلام یا ملاّ ازم‘‘ میں بے دریغ احمدی ہی کا نام استعمال کیا ہے۔
پاکستانی پریس قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار مرتبہ یہ مبارک نام استعمال کرچکا ہے مثلاً’’ پاکستان ٹائمز‘‘ (۱۳؍نومبر ۱۹۸۰ء)،’’ مشرق‘‘ (۳۰ جون ۱۹۷۴ء) ’’نوائے وقت‘‘ (۱۲ ؍اپریل ۱۹۶۰ء)، ہفت روزہ ’’رضاکار ‘‘لاہور (۲۴ مئی ۱۹۷۳ء)۔
احمدیت کے مخالف لٹریچر میں بھی مدت سے احمدی نام کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ جناب ملک محمد جعفر خان نے احمدیت کی مخالفت میں جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ہی ’’احمدیہ تحریک‘‘ رکھا ہے۔
مفکر احرار چوہدری افضل حق نے ’’فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیوں‘‘ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو زبردست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے انہیں احمدی کے ہی نام سے یاد کیا ہے۔ مولوی ظفر علی خان مدیر ’’زمیندار‘‘ نے ۱۹؍مارچ ۱۹۳۶ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:
’’احمدیوں کی مخالفت کا احرار نے محض جلب زر کے لئے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔‘‘ (تحریک مسجد شہید گنج صفحہ ۱۶۹۔ مؤلفہ جانباز مرزا)
نامور اہل حدیث عالم میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے ’’پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ‘‘ کے صفحہ ۱۱۲، ۱۱۳ پر کئی بار احمدی کا لفظ استعمال کیا۔ نیز لکھا:
’’احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے (تحریک پاکستان مراد ہے۔ ناقل) کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔‘‘
’’اور اس امر کا اقرار کہ احمدی اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں ، مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی ہے‘‘
یہ حیرت انگیز واقعہ مجسٹریٹ درجہ اول کوئٹہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ نام نہاد ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے مولوی تاج محمد صاحب نے ۲۱؍دسمبر ۱۹۸۵ء کو بیان دیا کہ:
’’ یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا، اذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں۔‘‘
غرضیکہ کہاں تک بیان کیا جائے احمدی کا مبارک نام عرب و عجم اور احمدی اور غیر احمدی حلقوں میں قریباً ایک صدی سے استعمال ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ کی دائمی پہچان اور شناخت بن چکا ہے۔ اس ضمن میں قارئین الفضل کو یہ چونکا دینے والا انکشاف یقیناً ورطہ حیرت میں ڈال دے گا کہ سیاسی ملاؤں نے ۱۹۵۲ء کی ایجی ٹیشن کے دوران یہ فتوی دیا کہ:
’’مرزائی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے۔‘‘ (احراری اخبار ’’آزاد‘‘ لاہور ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ۹ کالم ۲، مطالبہ نمبر)
اس ضمن میں مولوی عبدالحامد بدایونی صاحب نے ۹ جولائی ۱۹۵۲ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے زیر عنوان آرام باغ میں جو تقریر کی اس کا خلاصہ اخبار ‘‘آزاد‘‘ ۱۳؍جولائی ۱۹۵۲ء نے صفحہ نمبرایک پر پہلی سطر میں نہایت درجہ جلی قلم سے حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا:
’’مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
نیز رپورٹ میں مزید لکھا کہ:
’’آپ نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی دلیل یہ ہے کہ مرزائیوں نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان نہیں کہلایا وہ خود اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۱ کالم۲)
اب ان سیاسی ملاؤں کی حالیہ قلابازی ملاحظہ ہو کہ پچھلے دنوں پاکستان کی نگران حکومت نے جب یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی سفارتخانوں کو یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ پاسپورٹوں میں قادیانی کی بجائے احمدی کا لفظ استعمال کیا جائے تو پاکستان کے علاوہ برطانیہ میں مقیم سیاسی ملاؤں نے بھی ایک زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس ضمن میں روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جنوری ۱۹۹۷ء نے صفحہ۷ پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس کی دوہری سرخی یہ تھی:
’’قادیانیوں کو احمدی لکھنے کے فیصلے پر برطانیہ بھر کے علماء کا احتجاج۔نگران حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو مسلمان میدان میں آنے پر مجبور ہوں گے۔ دینی رہنماؤں کا ردّعمل‘‘
ازاں بعد لندن کے اخبار ’’دی نیشن‘‘ ۲۴ تا ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۷ء کے صفحہ۵ پر لندن کی مرکزی جماعت اہل سنت کی اپیل پر ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منائے جانے کی خبر اشاعت پذیر ہوئی جس میں کہا گیا کہ:
’’قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو پھر انہیں شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت دینا تعلیمات مصطفوی سے انحراف ہے۔‘‘
بالفاظ دیگر ’’احمدی‘‘ کا نام شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے اس کا استعمال تعلیمات مصطفوی سے انحراف کے مترادف ہے۔ حالانکہ ایک صدی سے خود ان حضرات کے اکابر و اصاغر یہ نام استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر امت مسلمہ ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منانے والے سیاسی ملاؤں اور طالع آزماؤں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اعلان کریں کہ جماعت کے لئے احمدی کا لفظ استعمال کرنے والوں کو کیا تعلیمات مصطفوی سے منحرف اور باغی قرار دیتے ہیں؟؟ علامہ شبلی نعمانی نے کیا خوب کہا تھا
کرتے ہیں مسلمانوں کی تکفیر شب و روز
 بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں
پاکستان کے فاضل ادیب و کالم نویس جناب عنایت حسین صاحب بھٹی نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور (۲۰ جنوری ۱۹۹۷ء) میں سیاسی ملاؤں کے اس طرز عمل پر ایک نہایت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’مولوی صاحبان نے احتساب کرانے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور الیکشن سے لاتعلقی کا اعلان فرمایا۔ وہ احمدی اور قادیانی مسئلہ میں الجھ گئے یا الجھا دیئے گئے اور حسب سابق پٹڑی سے اتر گئے۔ لیکن مولوی حضرات سے ایک سوال کرنے کی جرأت کروں گا کہ قادیانی سوائے پاکستان کے پوری دنیا میں احمدی کہلاتے ہیں۔ پورے افریقہ میں ان کے مشن ہیں جو لوگوں کو تبلیغ کرکے ان کے مذاہب تبدل کرکے ان کو احمد کا نام دیتے ہیں۔ پورے یورپ اور دیگر ممالک میں وہ احمدی کہلاتے ہیں حتیٰ کہ بھارت میں بھی ان کو احمدی کہا جاتا ہے۔ مگر صرف پاکستان میں احمدی نہ کہا گیا تو کیا فرق پڑے گا۔ یہاں ایک لطیفہ سنئے کہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر پر ایک سکھ چڑھ گیا اور بارہ بجنے میں پانچ منٹ پر اس نے گھڑیال کا پنڈولم پکڑ لیا اور کہنے لگا اب میں زیادہ نہیں بجنے دوں گا۔ لوگ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ سردار جی جب ساری دنیا کی گھڑیوں پر بارہ بج جائیں گے تو اگر ایک گھڑیال میں نہ بجے تو کیا فرق پڑے گا۔ مولوی حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن میں ارشاد پروردگار ہے لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں، آپ سیاست کو چھوڑ کر دین کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے۔ لوگوں کو دلائل سے قائل کیجئے کہ صحیح اسلام کیا ہے، دنیا میں اپنے تبلیغی مشن بھیجیں تاکہ لوگ صحیح دین سے متعارف ہوں، ڈنڈے سے کام تو وہ لیتا ہے جس کے پاس دلائل نہ ہوں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍مئی ۱۹۹۷ء تا ۵؍جون ۱۹۹۷ء)
مکمل تحریر >>

کیا گوشت خوری ایک ظالمانہ فعل ہے؟


 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مضمون بعنوان’’گوشت خوری پرایک مختصر نوٹ‘‘ ریویوآف ریلیجنزاردو ۱۹۱۹ء جلد ۱۸ نمبر ۱۰ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون آج کے حالات میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اسلئے ذیل میں آپ کا یہ مفید مضمون ہدیہ ٔ قارئین کیا جاتا ہے ۔

 خوراک کے لحاظ سے دنیامیں دوبڑے گروہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جوگوشت کھانے کو ایک ظالمانہ کام سمجھتے ہیں اور صرف سبزیوں وغیرہ پر گزارہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو باستثناچند جانوروں کے جن کاگوشت طبی لحاظ سے انسان کے جسم اورروح کے لئے مضر ہے باقی تمام جانوروں کا گوشت استعمال کرنے کو ایسا ہی جائز قرار دیتے ہیں جیسا سبزیوں کا استعمال۔ اول الذکر جماعت میں زیادہ تر ہندو اور بدھ مذہب کے لوگ ہیں لیکن ان خیالات کااثر حال میں یورپین ممالک میں بھی پھیلتا نظرآتاہے کیونکہ ہم کو ہمارے ان مبلغوں سے اطلاع ملی ہے جو یورپ میں کام کرتے ہیں کہ وہاں کے بعض تعلیم یافتہ لوگ اس خیال کی طرف مائل نظرآتے ہیں کہ گوشت خوری ایک ظالمانہ کام ہے جس سے ہر شریف آدمی کو پرہیز لازم ہے۔ ہم کو اس بات سے تعلق نہیں کہ یہ لوگ کس مذہب و ملت کے ہیں اور یہ کہ آیا یہ لوگ مذہباً اپنے آپ کو کسی ایسے مذہب کی طرف تو منسوب نہیں کرتے کہ جو گوشت خوری کو جائز اور حلا ل قرار دیتاہے اور جس کے بانی اور بزرگ ہمیشہ قولاً اور فعلاً گوشت خوری کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارا کام غلط عقائد اور غلط خیالات کی اصلاح ہے۔ پس خواہ ایسے لوگ مذہباً کسی ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ہم ان کی طرف توجہ کریں گے۔ غرض گوشت خوری پر ایک مبسوط مضمون لکھے جانے کی ضرورت ہے جس میں اس کی حکمت اور اس کے فوائد پر مفصل علمی بحث ہو اور جس میں تاریخی واقعات کی مدد سے یہ ثابت کیا جاوے کہ انسانی بقا اور ترقی کے لئے گوشت خوری بھی ایک حد تک ضروری اور لابُدی ہے مگر ہم شروع میں ہی یہ بتا دیناچاہتے ہیں کہ ہمارا یہ موجودہ مضمون اس ضرورت کو پورا کرنے والا نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ہم کسی اور مناسب وقت پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موجودہ مضمون میں ہم گوشت خوری کے متعلق جو اسلامی تعلیم ہے صرف اس کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور مختصر الفاظ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کے اندر کونسی حکمت مدنظر رکھی گئی ہے۔ مگر اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصولی طورپر اسلامی احکام پرایک سرسری نظر ڈالی جاوے اور دیکھا جاوے کہ اسلامی شریعت کی بنیاد کس اصول پر ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطًا‘ یعنی اے مسلمانو! تم وسطی امت بنائے گئے ہو۔ یعنی تم افراط و تفریط کی راہوں سے الگ کر کے وسطی طریقوں پر چلائے گئے ہو ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام میں یہی اصول چلتاہے۔ اور درحقیقت اگر عقلاً بھی دیکھا جاوے تو یہ ایک نہایت زرّیں اصول ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر امر میں دو انتہائی نقطے ہوتے ہیں اورایک وسطی مقام ہوتا ہے اور وہ انتہائی نقطے گو بعض حالات میں مفید ثابت ہوں لیکن بعض میں سخت نقصان دہ اور ضرررساں نکلتے ہیں ۔ مثلاً مجرم کی پاداش کے متعلق ایک یہود کا اصول ہے جو تورات سے ماخوذہے کہ ہر صورت میں جرم کی سزا ضرور ی ہے اورکسی صورت میں بھی عفو جائز نہیں۔ اور دوسرے مسیحیوں کا اصول ہے کہ بدی کا مقابلہ مطلقاً نہ کرناچاہئے بلکہ ہر حالت میں عفو اور درگزر سے کام لینا چاہئے ۔ اب یہ دو انتہائی نقطے ہیں جو ان مذاہب نے اختیار کئے ۔ حالانکہ دنیا میں ہمارا تجربہ اور عقل ان دونوں کو باطل قرار دیتاہے کیونکہ نہ تو ہر حالت میں سزا دینے کاا صول قاعدہ کلیہ کے طورپر مفید کہلا سکتاہے اور نہ ہی عفو و درگزر کا اصول ہر حالت میں مفید صورت میں چلایا جا سکتاہے۔ بلکہ ان کے درمیان ایک مقام ہے جو اصل قاعدہ بننے کے قابل ہے اوراسی کو اسلام نے اختیار کیاہے۔ چنانچہ فرمایا ’’جَزَآئُ سَیِّئَۃ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ‘‘ یعنی تمام جرائم کی سزا ہے لیکن اگر عفو سے اصلاح کی امیدہو توعفو کو اختیار کرنا چاہئے۔

اب یہ ایک ایسا اصول ہے کہ جو وسطی ہے اور یہی قاعدہ بننے کے قابل ہے ۔ غرض اسلام نے تمام امور میں افراط اور تفریط کی راہوں سے ہم کوبچاکر وسطی طریق پر چلایاہے۔ اس جگہ یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ بعض اوقات وسطی طریق بظاہر قابل اعتراض معلوم ہوتاہے اور انتہائی مقاموں میں سے کوئی ایک مقام درست اور صحیح نظر آتاہے ۔ جیساکہ اوپرکی مثال سے ظاہر ہے کہ مسیحیوں کایہ اصول کہ کسی صورت میں بھی بدی کامقابلہ نہ کیا جاوے بظاہر بہت خوشگوار نظر آتا ہے۔ مگرذرا غور سے دیکھو اور اس کے نتائج پر نظرڈالو اور تجربہ کی روشنی میں اس کا امتحان کرو توفوراً اس کا بودہ پن نظرآنے لگتاہے۔ اس لئے ہم کو اپنی ظاہری نظر پراعتماد نہ کرناچاہئے بلکہ ان اصول کو استعمال میں لاناچاہئے جو کسی چیز کی خوبی اور سقم کا پتہ لگانے کے لئے بطور معیارکے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔ اول عقل، دوئم مشاہدہ ، سوئم تجربہ۔ یہ تین ایسے چراغ ہیں کہ ان کی روشنی کے نیچے کوئی اندھیرا قائم نہیں رہ سکتا اور ہر چیز کاحسن و قبح روز روشن کی طرح نظر آنے لگتاہے۔مجردعقل بعض اوقات دھوکہ دیتی ہے ۔مگر جب اس کے ساتھ مشاہدہ کی مدداورتجربہ کی شہادت مل جاتی ہے توپھریہ ایک قابل اعتبار چیزہو جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام ہمیشہ وسطی مقام کواختیار کرتاہے اور انتہائی طریقوں سے الگ رہنے کی تعلیم دیتاہے اوراگر کسی موقع پروسطی مقام اور انتہائی نقطوں کے درمیان شک و شبہ پیدا ہو جاوے اور بظاہر ہم کو وسطی مقام قابل اعتراض نظرآئے اور انتہائی طریقوں میں سے کوئی طریق زیادہ درست اور پسندیدہ معلوم ہو تو پھراسکو عقل، مشاہدہ اورتجربہ کی متحدہ شمع کے سامنے پیش کرناچاہئے جہاں اس کاتمام حسن و قبح عیاں ہوجائے گااورکوئی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے گی۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم گوشت خوری کے متعلق اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں اور پھر اس پران اصول کے ماتحت نظرڈالیں گے جو ہم نے حق کی شناخت کے لئے اوپر بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’کُلُوا وَاشْربُوا وَلاَ تُسرِفوا‘‘۔ یعنی اے مسلمانو! جوچیزیں ہم نے تمہارے لئے حلال کی ہیں وہ سب کھاؤ پیو لیکن ان میں سے کسی ایک قسم پر خاص زور نہ دو یعنی ایسانہ کرو کہ صرف گوشت ہی کھاتے رہو یا یہ کہ صرف سبزیاں ہی کھاؤ اور گوشت قطعاً ترک کردو بلکہ حالات کے مطابق خوراک کھاؤ ۔
یہ وہ تعلیم ہے جو کھانے پینے کے بارہ میں ہم کو اسلام سکھاتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے کے معاملہ میں کسی چیز کے استعما ل میں اسراف نہ ہوناچاہئے ۔ یعنی اگر کسی جگہ کے حالات اورآب و ہوا وغیرہ اس بات کے مقتضی ہیں کہ گوشت اور سبزی ایک مقدار میں کھائی جاوے (جیساکہ منطقہ معتدلہ میں) تو اسی طرح کھاؤ اور اگر کسی جگہ کی آب وہوا اور حالات یہ چاہتے ہیں کہ سبزی پر زیادہ زور ہو اورگوشت کم استعمال ہو تو پھرایسا ہی کرنا چاہئے جیساکہ منطقہ حارہ میں اور اگر کسی آب وہوا میں گوشت پر زیادہ زور دینامناسب ہو تو وہاں یہی کرنا چاہئے جیسا کہ منطقہ منجمدہ اور اس کے قریب کے علاقہ جات میں۔ غرض جوبھی کسی جگہ وہاں کے حالات کے ماتحت اسراف کی تصریف اور اس کی حد ہو اس سے بچنا چاہئے اور وسطی طریق کو اختیار کرنا چاہئے۔ یہ تو ملکی لحاظ سے تقسیم ہے ۔ اسی طرح بعض افراد کی طبائع میں بھی بعض ذاتی خصوصیات ہوتی ہیںیعنی کسی طبیعت کے لئے سبزی کی کثرت کی ضرورت ہو گی تو کسی کے لئے گوشت کی اورپھر کوئی ایسی بھی طبیعت ہوگی جس کے لئے دونوں کا ایک جیسا استعمال مفید ہوگا اور ان طبائع کے مطابق ہر ایک کے لئے الگ الگ اسراف کی حد ہوگی جس کے مطابق ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے ۔
اب جبکہ ہم کو اس معاملہ میں اسلامی تعلیم کاعلم ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ ایک وسطی تعلیم ہے جو افراط اور تفریط سے الگ ہے۔ یعنی نہ تو ہم کو خواہ مخواہ گوشت خوری پر زور دینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی گوشت خوری سے بالکل علیحدگی کا حکم دیا گیا ہے بلکہ حالات کے مطابق بین بین کی مناسب راہ اختیار کرنے کو کہا گیاہے اور یہی وسطی تعلیم کا مدعا ہے۔ اب ہم نے دیکھنایہ ہے کہ آیا یہ وسطی تعلیم درست اور پسندیدہ اور بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے یا اس معاملہ میں انتہائی نقطوں میں سے کوئی مقام قابل ترجیح ہے ؟ گویا اس لحاظ سے تین گروہ ہو گئے۔
اوّل وہ لوگ جو گوشت کھانا ناجائز قرا ر دیتے اور ایک ظالمانہ کارروائی خیال کرتے ہیں ۔
دُوسرے وہ لوگ جو گوشت خوری پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ گویا سبزیوں کے استعمال سے کنار ہ کش ہو گئے ہیں۔
تیسرے وہ لوگ جو گوشت اور سبزیاں ہردو کا استعمال ضرور ی جانتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی نامناسب کثرت کو ناپسند کرتے ہیں اور موخرالذکر گروہ وسطی امت ہے۔
ان تینوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت حق پر ہے اور ان تینوں طریقوں میں سے کون سا طریقہ بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر اب ہم نے غور کرنا ہے اور تینو ں کو عقل، مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھناہے۔ مگر اس سے پیشتر ذیل کے حقائق کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے ۔
(۱)۔الف۔۔۔:انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اس مخلوقات میں سے جو عرف عام میں جاندار کے نام سے موسوم ہوتی ہے انسان کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔
ب۔۔۔:اگر کوئی جائز ضرورت پیش آوے تو ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کر دینا چاہئے جیساکہ قانون قدرت میں ہمارا مشاہدہ ہے ۔
ج۔۔۔: اخلاقی زندگی جسمانی زندگی سے افضل ہے۔
د۔۔۔:اقوام کی زندگی کا رتبہ افراد کی زندگی سے بالاتر ہے۔
(۲)۔۔۔علاوہ جسمانی اثر کے خوراک کاایک نہایت گہرا اثر انسان کے اخلاق پر بھی پڑتا ہے ۔ یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کی تائید میں نہایت مضبوط طبی اور تاریخی شہادات موجود ہیں جن کاانکار نہیں کیا جا سکتا اور سائنس نے اس علم کو اس حد تک یقینی بنادیاہے کہ اب کوئی بے وقوف ہی ہوگا کہ جو اس سے انکار کرسکے۔ ہر قسم کی خوراک الگ الگ اپنا اثر دکھاتی ہے جو انسان کے جسم اور اخلاق دونوں میں ظاہر ہوتاہے اور یہ اثر گو بعض خاص افراد میں بعض خصوصیات کی وجہ سے زیادہ نمایاں طور پر ظاہر نہ ہو۔ لیکن اقوام کے اخلاق میں ان کا ظہور پذیر ہونا بالکل یقینی اور قطعی ہوتاہے کیونکہ کسی قوم کے اخلاق سے اس قوم کے اکثر افراد کے اخلاق مراد ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی خاص قسم کی خوراک انسان کے رنگ میں زردی پیدا کرنے والی ہے تو اس خوراک کے استعمال کرنے والی قوم کے اکثر افراد میں یہ صفت ظاہر ہو کر اس قوم کی قومی خصوصیت بن جائے گی یا مثلاً اگر کسی خوراک میں انسان کے اندر عجلت اور بے صبری پیدا کرنے والی خصوصیت ہے تو اس خوراک کے استعمال کرنے والی قوم میں یہ صفات بطور قومی خلق کے ہو جائیں گی خواہ بعض افراد ان کمزوریوں سے آزاد ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ خوراک انسان کے جسم اور اخلاق پر گہرا اثر کرتی ہے۔لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اثر ہر فرد میں نمایاں طورپر ظاہر ہو کیونکہ بعض افراد میں بعض ذاتی خصوصیات ہوتی ہیں یا ان کے اندر اس اثر کا مقابلہ کرنے والی باتیں فطرتاً موجود ہوتی ہیں اس لئے ہم ہر فرد کے متعلق تو نہیں مگر اکثرافراد کے متعلق یقینی طورپر فتویٰ لگاسکتے ہیں کہ وہ اس کے اثر کے نیچے آ ئیں گے اور چونکہ کسی قوم کے اکثر افراد میں جوبات پائی جاتی ہے وہی اس قوم کا قومی خلق کہلاتاہے اس لئے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خوراک کا اثر قومی خلق میں نمایاں طورپر ظاہر ہوتاہے ۔
اب ہم اصل بحث کو لیتے ہیں ۔ طبی لحاظ سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت،بہادری ، جوش و خروش اور سختی اور اسی قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے اور سبزیوں کااثر نرمی ، حلم اور صبرو برداشت اور اسی قسم کے دوسرے صفات کے رنگ میں ظہور پذیرہوتاہے ۔یہ ایک طبی تحقیق ہے اور صرف ایک تھیوری کے طورپر نہیں بلکہ مشاہدہ اور تجربہ کے معیار سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے۔ حیوانات میں دیکھ لو گوشت خور اور سبزی خور حیوانات علی الترتیب انہی صفات سے متصف نظرآئیں گے ۔ اس جگہ تفصیلات کی گنجائش نہیں ورنہ حیوانات میں اس رنگ کی تحقیقات کرنا اور ہر ایک قسم کے حیوانات کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس کی خوراک کے لحاظ سے اس کی صفات کا معائنہ کرنا ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور اہل علم نے اس کے متعلق بڑی تحقیقاتیں کی ہیں اور نہایت مفید معلومات اور تجارب کا ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ جانوروں سے ہٹ کر انسان پر نظر ڈالیں تویہاں بھی یہ فرق نمایاں طورپر نظر آتاہے یعنی اگر گوشت خوری پر ناجائز اور نامناسب زور دینے والی اقوام میں بہادری، جرات، جوش اور سخت دلی کی صفات نظرآتی ہیں تو صرف سبزی کھانے والی اقوام میں یہ صفات قومی اخلاق کے طورپر مفقود ہیں اور ان کی جگہ نرمی ، حلم، برداشت اور تحمل کی صفات پائی جاتی ہیں۔
جن لوگوں نے تاریخ پر اس لحاظ سے نظر ڈالی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ امتیاز کسی خاص اقوام تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی خوراک کاامتیاز موجود ہے وہاں ساتھ ساتھ قومی اخلاق میں بھی خوراک کے مناسب حال امتیازات موجود ہیں۔ہم اس ضمن میں کسی خاص قوم کا نام لیناپسند نہیں کرتے اور نہ اس جگہ ان تفصیلات کی گنجائش ہے۔ مگر ہر شخص جو اپنے طورپر تحقیق کر ے گا وہ یقیناًیقیناًاسی نتیجہ پرپہنچے گاجو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی گوشت خوری پر ناروا زور دینے والی اقوام بلند ہمت دلیر بہادرمگرجوشیلی اور سخت دل نظرآئیں گی اور سبزیوں کا نامناسب طور پر زیادہ استعمال کرنے والی اور گوشت سے بالکل الگ رہنے والی اقوام نرم، حلیم ، صابر مگر بزدل اورکم ہمت نکلیں گی۔ ہاں اس تحقیقات کے لئے اس بات کومدنظر رکھناضروری ہے جو ہم نے اپنے شروع مضمون میں ہی بیان کر دی تھی یعنی گوشت اور سبزی کے استعمال کی حد ملک کی آب وہوا اور استعمال کنندگان کے حالات کے مطابق ہوگی مثلاً انگلستان میں گوشت کے استعمال کی جومناسب حدہے جس سے اوپراس ملک میں اسراف ہوگاوہ اس حد سے بڑھ کر ہے جو مثلاً افریقہ کے وسط میں ہے ۔اگر افریقہ کارہنے والا اسی قدر گوشت کھاتاہے جو ایک انگریز اپنے ملک میں کھاتا ہے تو وہ اس بارہ میں اسراف کرتاہے اور اس کے اندر گوشت کے ناروا استعمال سے جو اخلاقی کمزوریاں پیداہوجاتی ہیں ضرورظاہر ہونگی۔ اوراگر ایک انگلستان کا باشندہ اتنی سبزیاں کھاتاہے جو ایک وسط افریقہ کے باشندے کومناسب ہے اورگوشت سے پرہیز کرتاہے تو وہ ان خوبیوں کو کھو بیٹھے گا جو گوشت کے جائز استعمال سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کمزوریوں کو اپنے اندرپیداکر لے گا جو سبزی کے ناواجب استعمال کانتیجہ ہوتی ہیں ۔غرض ہر آب وہوا کے لئے الگ اسراف ہے ۔ اسی طرح بعض طبائع بھی اپنی الگ الگ خصوصیات رکھتی ہیں اس لئے اس معاملہ میں تحقیقات کرنے والوں کو لازم ہے کہ تحقیقات کے وقت ان باتوں کو نظرانداز نہ کردیں کیونکہ اگر وہ ایساکریں گے تو ان کی تحقیقات کے نتائج یقیناًغلط ہونگے۔ہاں ان باتوں کی جائز مراعات رکھتے ہوئے جو تحقیقات کی جائے گی وہ یقیناًاسی نتیجہ پر پہنچائے گی جو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی گوشت خوراقوام بشرطیکہ وہ گوشت کاناروااستعمال کرتی ہوں بہادری اور جری توہونگی مگر ساتھ ہی بیہودہ جوش و خروش ظاہر کرنے والی اور سخت دل بھی ہونگی۔ اور سبزیوں پرنامناسب زوردینے والی اقوام یعنی وہ اقوام جو باوجود ضرورت کے گوشت سے پرہیز کرتی ہیں حلیم اور نرم دل تو بے شک ہونگی مگر ساتھ ہی کم ہمت اور بزدل بھی ہونگی ۔ یہ ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور تاریخ پڑھنے والوں سے ہم بڑے زور کے ساتھ تحریک کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کے مطالعہ کے وقت ان امور کو مدنظررکھیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی محنت رائیگاں نہ جاوے گی بلکہ وہ نہایت دلچسپ مفیداور علمی معلومات کا ذخیرہ جمع کر سکیں گے ۔ ہاں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف خوراک ہی نہیں جو انسان کے اخلاق پراثر رکھتی ہے بلکہ اخلاق پراثر ڈالنے والی چیزیں اور بھی ہیں اور ان کونظرانداز کرناغلط نتائج پیدا کرے گا۔
تاریخ سے پتہ لگتاہے کہ گوشت خور اقوام کا جب کبھی صرف سبزی کھانے والی اقوام سے مقابلہ پڑاہے تو گوشت کھانے والوں کاپلّہ بھاری رہاہے اوروہ ہمیشہ غالب آئے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی اور وجوہات پیدا ہو گئی ہوں جنہوں نے اس اثر کو وقتی طورپر دبا دیاہو۔ ہاں جہاں مستقل مزاجی اور محنت اور توجہ کے ساتھ کسی کام پر لگے رہنے کامقابلہ ہو تووہاں گوشت پر زیادہ زور دینے والی قوم ہمیشہ پیچھے نظر آئے گی اور سبزی کا استعما ل کرنے والی اقوام نمایاں حیثیت حاصل کر لیں گی ۔ یہ باتیں صرف دعویٰ کے طور پرنہیں ہیں بلکہ ان کی مدد میں تاریخی شہادتیں اور زمانہ حال کی علمی اور طبی تحقیقاتیں موجود ہیں مگر اس جگہ ان تفصیلات کی گنجائش نہیں۔
اب جب یہ ظاہر ہوگیاکہ :
(۱)۔۔۔:گوشت کااستعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیوں کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے وہاں اس کا ناروا استعمال بعض اخلاقی کمزوریوں کو بھی پیداکرتاہے اور اسی طرح سبزیوں کا استعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیاں بھی پیدا کرتاہے وہاں گوشت کو بالکل ترک کر کے سبزیوں پرناواجب زور دینا بعض اخلاقی کمزوریاں بھی پیدا کر نے والا ہوتاہے۔
(۲)۔۔۔:خوراک کا یہ اثر گوبعض افراد میں بعض وجوہات سے نمایاں طورپر ظاہر نہ ہو لیکن قومی خلق کے طور پر اس کا ظہور پذیر ہونا یقینی اور قطعی ہوتاہے اور گو ہر فرد بشر کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر نہ ہوں لیکن ہر قوم کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ ان دو نتائج کے اخذ کرنے کے بعد جو اوپر کے بیان سے واضح طورپر پیدا ہوتے ہیں ہم اصل مضمون کو لیتے ہیں۔
گوشت خوری کیاہے ؟ ہم اس کاجواب سبزی کھانے والوں کی طرف سے دیتے ہیں ۔ گوشت خوری کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی جاندار مخلوق کو صرف اس غرض سے ہلاک کیا جائے کہ اس کا گوشت انسان کے پیٹ میں جاوے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ ۔(ہمارا جواب ) نہیں یہ ظلم نہیں بدیں وجہ۔
گوشت خوری کے یہ معنی ہیں کہ ایک جاندار کی زندگی کاخاتمہ کیا جاوے بہت درست! گویا ہم اللہ کی مخلوق میں سے جو بمقابلہ انسان کے بہت کم درجہ کی ہے ایک فرد کی جسمانی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں ۔ اس میں تین باتیں یاد رکھنے کے قابل ہیں:
(۱)۔۔۔انسان کے مقابلہ میں بہت کم درجہ کی مخلوق کی زندگی۔
(۲)۔۔۔ ایک فرد کی زندگی۔
(۳)۔۔۔اس فرد کی جسمانی زندگی۔
یہ تین چیزیں ہم لیتے ہیں اور بے شک اگر بغیر جائز اور معقول وجہ کے ہم لیں تو ہماری سخت غلطی ہوگی اور ہمارا یہ فعل ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اور اسی لئے اسلام جانوروں کی جان لینا تو درکنار ان کو بے جا طورپر مشقت اور تکلیف میں ڈالنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ روکتاہے مگر گوشت خوری کا معاملہ ایک اور قسم کامعاملہ ہے ۔ اس میں ہم
بے شک اللہ کی مخلوقات میں سے ایک فرد کی جسمانی زندگی لیتے ہیں مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کس ضرورت کے لئے لیتے ہیں اور کس کے لئے لیتے ہیں؟ ظاہرہے کہ(۱) اشرف المخلوقات کی(۲)اجتماعی(۳) اخلاقی زندگی کے بقا کے لئے لیتے ہیں ۔ پس کون عقلمند ہے جو اس قربانی پر اعتراض کرے ۔
غور کرو ایک طرف اشرف المخلوقات کی زندگی ہے اوردوسری طرف اس سے بہت کم درجہ کی مخلوق کی زندگی ہے۔ پھر ایک طرف انسان کی قومی اور اجتماعی زندگی اور دوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی زندگی۔پھر ایک طرف انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی ہے اوردوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی جسمانی زندگی ۔ میں تو کہتاہوں کہ اگرانسانوں میں سے کسی فرد کی جسمانی زندگی کی بقا کے لئے بھی حیوانات کی اجتماعی جسمانی زندگی کی قربانی درکار ہو تو کوئی عقلمند اس قربانی سے نہیں رکے گا اور ہم عملاً دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کوئی نہیں رکتا۔ کیا اگرکسی سبزی خورکے بدن پر ایک زخم ہو تو وہ اس میں ایسی دوا نہیں ڈلوائے گا جوکیڑے مارنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسا ضرور کرے گا اور ہرگز اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اتنے جاندار کیڑوں کی زندگی اس کے آرام کے لئے جاتی ہے کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور باقی مخلوقات اس کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پس اگرکسی وقت اس کے فائدہ کے لئے کسی اور مخلوق کی زندگی کی اسے ضرورت ہوگی تو وہ اسے لینے سے دریغ نہ کرے گا۔ دیکھو مثلاً پانی میں بے شمار باریک کیڑے ہوتے ہیں لیکن چونکہ پانی انسان کی جسمانی زندگی کے لئے ضروری ہے اس لئے کوئی ایسا شخص پانی کے استعمال سے اس وجہ سے نہیں رکتاکہ اس کے استعمال سے بے گنا ہ کیڑوں کی جان جاتی ہے۔
پس جب انسان کی جسمانی زندگی کے بقا کے لئے حیوانات کی قربانی کی جاتی ہے اور کوئی شخص اس پرمعترض نہیں حتی کہ سخت ترین سبزی خور بھی روزانہ اپنے ہاتھوں سے یہ قربانی کرتے ہیں توانسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی کے بقا کے لئے اگرکسی حیوان کی جسمانی زندگی کی قربانی کی ضرورت ہو تواس سے رکنا ایک ابلہانہ بات ہے ۔ یہ رحم ایک جھوٹا رحم ہے اور اسی قسم کارحم ہے کہ کوئی شخص اپنے زخم کے کیڑوں کو اس واسطے نہ ہلاک کرے کہ ان کی جان جاتی ہے اور اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کردے ۔ اس رحم کے یہ معنی ہیں کہ دو چیزوں کو رحم کی ضرورت ہے ۔ ایک انسان کو اورایک حیوان کو۔ اور دونوں میں سے صرف ایک پررحم ہو سکتاہے بلکہ ایک پررحم کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ دوسرے کو ہلاک کیاجاوے یعنی اگر حیوان پررحم ہو تو انسان کی جان جاتی ہے اور اگر انسان پررحم ہو تو حیوان کی جان لینی پڑتی ہے۔ اب بتاؤ ان میں سے کس کواختیارکرو گے؟ کیاانسان کوہلاک ہونے دو گے صرف اس لئے کہ کسی حیوان کی جان بچ جاوے۔ اگرایسا کرو گے تو تم قانون قدرت و قانون فطرت کے خلاف چلو گے اور اس صورت میں تم رحیم نہیں ہوگے بلکہ ظالم کہلاؤ گے ۔ انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی کے لئے جیساکہ سبزی ضروری ہے ویسا ہی گوشت کا مناسب استعمال بھی ضروری ہے ۔ پس کیا انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرو گے اسلئے کہ کسی حیوان کی جسمانی زندگی کو نقصان نہ پہنچے۔ دیکھو خوراک کا اثر انسان کے اخلاق پر یقینی اور قطعی ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی خاص فرد میں ظاہر نہ ہو یہ بھی ممکن کہ کسی قوم میں یہ فوراً ظہور پذیر نہ ہو مگر آہستہ آہستہ یہ اپنا اثر پیدا کرتاہے اور بالآخر یقیناًیقیناًقومی خلق میں اپنا رنگ ظاہر کرتاہے طبی تحقیقات اور تاریخی شہادت اس کے مؤید ہیں اور کوئی عقلمند نہیں جو اس سے انکار کر سکے۔ ایک ظاہر بین شخص جس کی نظرعام طور پر صرف محسوسات تک محدود ہوتی ہے ان باتوں کو نہیں دیکھ سکتا مگر یہ ہر وقت اپناکام کر رہی ہوتی ہیں اور اسی قسم کے اثرات بالآخر اقوام کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی قوم جری ہے تو کوئی بزدل ۔ کوئی جوش اور امنگ والی ہے تو کوئی ڈھیلی اور مدھم۔ پھر کوئی صبر اور برداشت والی ہے تو کوئی جلد باز اور غیرمستقل مزاج ۔ پھر کوئی سخت گیر اور سخت دل ہے تو کوئی حلیم اورنرم دل ہے۔ غرض کوئی کسی طرف جھکی ہوئی ہے تو کوئی کسی طرف۔ کیا خالق ہستی نے ان کوا س رنگ پرچلایاہے؟ نہیں بلکہ خدا کی طرف سے تو سب کو اعلیٰ اور معتدل اخلاق کی طاقتیں ودیعت کی گئی ہیں اور یہ صرف بیرونی تاثیرات ہیں کہ جو کسی کو ایک طرف جھکا دیتی ہیں تو کسی کو دوسری طرف ۔ پس ان پرغورکرنا اور ان کی حقیقت کو سمجھنا ہمارا فرض ہے اور ہم کو لازم ہے کہ ایسے طریق اختیار کریں کہ ہمارے فطری قویٰ اورفطری طاقتیں تمام کی تمام معتدل راستہ پرنشوونما پائیں اور کوئی قوت نامناسب طور پر حد اعتدال سے گزر کر دوسروں کو اپنے نیچے نہ دبا لے ۔ اگر ہم اس معاملہ میں غفلت کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ ہماری اجتماعی اخلاقی موت ہوگی۔ ان طرق میں سے ہماری خوراک کادرست ہونا بھی ایک نہایت زبردست طریق ہے ۔
پس چاہئے کہ شراب استعمال کرنے والی اقوام غورکریں کہ اس کا استعمال ان کے اجتماعی اخلاق پر بالآخر کیا اثرات پیدا کر ے گا اور کر رہا ہے۔سؤر کھانے والی اقوام سوچیں کہ سؤر کاگوشت ان کو بحیثیت مجموعی کیا بنا دے گااور بنا رہا ہے ۔ سبزیوں پر زور دینے والی اور گوشت کو کلیۃً ترک کردینے والی اقوا م تدبر سے کام لیں کہ اس اسراف کاکیا نتیجہ ہوگا اور ہو رہا ہے ۔ گوشت کا نامناسب استعمال کرنے والی اقوام خیال کریں کہ یہ عاد ت ان کو کس طر ف لے جا رہی ہے۔ بغیر غوراور تدبر کے یونہی رحم رحم پکارناآسان ہے مگرخدارا غور توکرو کہ اس رحم کے کیامعنی ہیں۔ اس کے معنی ہیں انسان پرظلم کرنا۔ ایک حیوان جو انسان ہی کی خاطربنایاگیاہے اس کے گلے پرچھُری پھرتی ہوئی تم کو تکلیف دیتی ہے لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرنا تم کو بھلا معلوم ہوتاہے۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟ یہی کہ حیوان کی جسمانی زندگی نکلتے ہوئے تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی موت دیکھنے کے لئے تمہاری ان آنکھوں میں طاقت نہیں۔ ایک مذبوح جانور تمہارے سامنے تڑپتاہے اور تمہارا دل بھر آتاہے لیکن نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کی مذبوحی حرکات تمہیں نظر نہیں آتیں اس لئے تم کواس کی پرواہ نہیں ۔ سنو! تم ایک معمولی سپاہی کی زندگی پر جھوٹا ترس کھا کر ایک نہایت آزمودہ کار اور قابل جرنیل کو اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہو۔ نہیں یہ مثال بھی غلط ہے کیونکہ ایک سپاہی اورجرنیل میں پھربھی کوئی نسبت ہے لیکن ایک حیوان کی جسمانی زندگی اور نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کے درمیان سچ پوچھوتو کوئی نسبت ہی نہیں۔ پس نتائج پرغورکرو۔ جھوٹے جذبات کے پیچھے نہ چلو۔ خداداد عقل مشاہد ہ اور تجربہ کی روشنی میں اپنی نظرسے کام لو ۔ پھر تم اشیا ء کی کنہ تک پہنچو گے اور تمہاری نظر حقائق کے پاتال کو چھیدتی ہوئی نکل جائے گی۔
ہاں یہ بھی تو غور کرو کہ کوئی مذہب و ملت ایسا نہیں کہ جس کے سلف گوشت خوری سے پرہیز کرتے ہوں اور صرف سبزیوں پر گزارہ کرتے ہوں۔ آج ہندو مذہب سبزی خوروں میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتاہے مگر کون جانتاہے کہ ہندوؤں کے بزرگ اور ان کے مذہب کے بانی گوشت کھاتے اور خوب کھاتے تھے۔ یورپ کے عیسائیوں میں اسوقت بعض سبزی خور ی کی طرف مائل نظرآتے ہیں اور گوشت خوری کو ظلم قرار دیتے ہیں مگر کیایہ سچ نہیں کہ مسیحیت کا بانی گوشت خورتھا اوربنی اسرائیل کے تمام گزشتہ انبیاء گوشت کھاتے تھے۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگ اس حقیقت کوسمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ ایک جانور کی جسمانی زندگی نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کے مقابلہ میں قربان کردینے کے قابل ہے۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۴؍جون۱۹۹۹ء تا۱۰؍جون ۱۹۹۹ء)
مکمل تحریر >>

لاہوری جماعت کے اعتراضات کے جوابات

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ا وّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدرضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو بعض لوگوں نے آپ کی بیعت نہ کی اور قادیان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مرکز بناتے ہوئے اپنی ایک علیحدہ جماعت بنالی اور خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستگی رکھنے والوں کے خلاف ایک مہم شروع کردی۔ یہ گروہ غیر مبایعین ، اہل پیغام ، پیغامی اور لاہوری احمدی جماعت کے نام سے معروف ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے اس گروہ نے خلافت حقہ اسلامیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے خلاف اپنے وساوس انٹرنیٹ پرپھیلانے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور ساتھ ہی بڑی تعلّی سے دعویٰ کیا ہے کہ صرف لاہوری جماعت ہی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی اور تعلیمات کو صحیح اور اصل شکل میں پیش کر رہی ہے جبکہ خلافت سے وابستہ جماعت نے آپ کے دعاوی کو(نعوذباللہ) مسخ کرکے پیش کیا ہے ۔ بتوفیقِ الٰہی ان وساوس کا جواب ذیل میں دیا جاتاہے۔


اس مضمون کوPDF میں ڈاؤن لوڈ کریں


وسوسہ نمبر ایک

غیر مبایعین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م ہرگزنبی نہ تھے اور آپ نے ہر گز کہیں نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں صرف مُحَدَّث ہوں یعنی وہ جس سے اللہ تعالیٰ بکثرت کلام کرتاہے ۔مگر ’’جماعت قادیان‘‘ نے خواہ مخواہ آپؑ کو نبی بنالیا ہے ۔

جواب

اس میں شک نہیں کہ شروع میں حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام مسلمانوں میں عام طورپرمشہور تعریف نبوت کو ہی صحیح تعریفِ نبوت خیال فرماتے رہے۔ آپ ۱۹۰۱ء تک یہی عقیدہ رکھتے رہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺخاتم النبیین ہیں اس لئے آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آ سکتا ، خواہ پرانا ہو یا نیا اورآپ اپنے الہامات میں موجود لفظ ’نبی‘ کی تاویل فرما دیتے اورکہتے کہ اس سے مراد صرف مُحَدَّث ہے ۔ آپ نے اس بات کا اظہار کئی جگہوں پر فرمایا۔ مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’۔۔۔قرآ ن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو کیونکہ رسول کوعلمِ دین بتوسط جبرائیل ملتاہے اور باب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وحی ٔ رسالت مسدود ہے ‘‘۔(ازالہ اوہام حصہ دوم ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۱۔مطبوعہ لندن)
مگر جب اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ پر متواتر اور بارباروحی کے ذریعہ اصل حقیقت پوری طرح آشکار کر دی تو آپ ؑ نے باربار بتصریح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے واضح طورپر بتایاہے کہ میں فی الحقیقت نبی ہوں مگر یاد رہے کہ مَیں ظلّی نبی ہوں یعنی میں رسول اللہ ﷺکاامتی اورآپ تابع نبی ہوں اور بغیر کسی نئی شریعت کے ہوں۔
اس کے بعد آپ ہمیشہ ہی ہر اس شخص کو جو آپ کے نبی ہونے کے بارہ میں شک کرتاتھا ، اصرار کے ساتھ وضاحت سے بتاتے رہے کہ ان معنوں میں میں نبی ہوں۔ اور جہاں کہیں بھی آپ نے اس کے بعد نبوت کا انکار کیاہے ہمیشہ صرف ایسی نبوت کا انکار کیا ہے جونبی کریم ﷺ کی تابع نہ ہو آپ سے فیض یافتہ نہ ہواورنئی شریعت والی ہو۔آپ ؑ نے ’’ ختم نبوت‘‘ کے مروّجہ عام طورپرمفہوم میں وحی الٰہی سے کی جانے والی اس تبدیلی کا ذکر بڑی وضاحت سے فرمایاہے ۔چنانچہ حقیقۃ الوحی میں آپؑ پہلے ایک معترض کا ایک اعتراض درج کرتے ہیں اور پھراس کاجواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’سوال(۱) تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں (جو میری کتاب ہے) لکھاہے: اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پرفضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے کہ جو غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ۔ پھر ریویو جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷ میں مذکور ہے :خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے ۔ پھرریویو صفحہ ۴۷۸میں لکھاہے: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتاہوں وہ ہرگز نہ کر سکتااوروہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز د کھلا نہ سکتا ۔
خلاصہ اعتراض یہ کہ ا ن دونوں عبارتوں میں تناقض ہے ۔
الجواب: یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھیراؤں ۔ خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیساکہ وہ فرماتاہے قُلْ اُجَرِّدُ نَفْسِی مِنْ ضُرُوْبِ الْخِطَابِ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تویہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اورمیری مراد ان خیالات سے برتر ہے۔ اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے۔ میرا اس میں دخل نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ ایساکیوں لکھا گیا اور کلام میںیہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا، سو اس بات کوتوجہ کرکے سمجھ لوکہ یہ اُسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھاکہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا، مگر بعد میں یہ لکھاکہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خد اتعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایاکہ تیرے آنے کی خبر خدا اوررسول نے دی تھی،مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پرجماہوا تھااورمیرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہونگے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پرحمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جوعام مسلمانوں کا تھااوراسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا ۔ لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھاتوہی ہے ۔ اور ساتھ اس کے صدہانشان ظہور میں آئے اورزمین وآسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اورخداکے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبرکرکے مجھے اس طر ف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں۔ ورنہ میرا اعتقاد تووہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیانسبت ہے ؟وہ نبی ہے اور خداکے بزرگ مقربین میں سے ہے ۔اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کوجزئی فضیلت قرار دیتا تھا ۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پرقائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیامگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔۔۔۔۔۔۔ خلاصہ یہ کہ میری کلام میں کچھ تناقض نہیں ۔ میں توخداتعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں ۔ جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تومیں نے اس کے مخالف کہا ۔ میں انسان ہوں۔ مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔۔۔‘‘۔
 (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۵۲تا۱۵۴ )

اس سے ثابت ہوا کہ آپ ؑ نے نبوت کی عمومی تعریف میں خصوصاً اپنی نبوت کے بارہ میں اپنے سابقہ موقف میں وحی الٰہی کی بناء پر تبدیلی فرمائی تھی ۔ آپ پہلے اپنے آپ کونبی نہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے الہامات میں جہاں جہاں ’’نبی‘‘ کا لفظ پاتے اس کی تاویل فرماتے ۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے باربار تصریح فرمائی کہ تو درحقیقت نبی ہے تو آپ ؑ نے علی الاعلان اس بات کا بار بار اظہار فرمایا۔
مگر غیر مبایعین حضور ؑ کے صرف سابقہ عقیدہ کو ہی پیش کرتے ہیں اور آپ کے وحی الٰہی کے تابع اس تصحیح شدہ عقیدہ سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں جس کا آپ نے بڑے اصرار کے ساتھ بارباراعلان فرمایا۔ 

حضرت مسیح موعود ؑ کا نبوت پراصرار

الفضل انٹرنیشنل کے ۴؍فروری ۲۰۰۰ء میں خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ کا جو مقالہ نشر ہوا ہے اس میں آپ نے حضور اقدس علیہ السلام کی متعدد تحریرات درج فرمائی ہیں جن میں حضورؑ نے باربار اپنی ظلی نبوت کااعلان فرمایا ہے ۔ خاکسار یہاں بعض مزید مفید حوالے درج کرتاہے جن میں سے بعض آپؑ کی عربی کتب سے ماخوذ ہیں۔یہ تحریرات مسئلہ نبوت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ آپؑ کی اپنے آقا ومولیٰ محمد مصطفی ﷺ سے حد درجہ محبت وفدائیت پر بھی روشن دلیل ہیں ۔
(۱)۔ حضور اقدس علیہ السلام نے امریکی پادری ڈاکٹرجان الیگزانڈر ڈوئی (جو بعد میں آپ کی دعا ئے مباہلہ سے واصل جہنم ہوا)کو مخاطب کرکے فرمایا:
ترجمہ:واللہ ، میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے میری نبوت سے مراد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ لیاہے۔ اور اس پراللہ کی لعنت ہے جواس سے زائد چاہے یا اپنے آپ کوکچھ سمجھے یا اپنی گردن کو نبی اکرم ﷺکی نبوت کے جوئے سے باہر نکالے۔ ہمارے رسول خاتم النبیین ہیں اوران پر نبیوں کا سلسلہ اختتام کو پہنچا ۔ پس اب کسی کا حق نہیں کہ ہمارے رسول مصطفی ؐکے بعد مستقل طورپر نبوت کا دعویٰ کرے ۔ آپ ؐ کے بعد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ باقی ہے اور اس کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ آپ ؐ کا متبع ہو ۔ آپؐ کی پیروی کے بغیر یہ بات بھی ممکن نہیں۔ اوراللہ کی قسم مجھے یہ مقام نہیں ملا مگر مصطفوی شعاعوں کی پیروی کی بدولت اور میں مجازی طورپرنبی کانام دیا گیاہوں نہ کہ حقیقی طورپر ۔ پس یہاں نہ اللہ کی غیرت بھڑکتی ہے نہ اس کے رسول کی ۔ کیونکہ میں تو نبی (کریم ﷺ) کے پروں تلے پرورش پاتاہوں اور میرا یہ قدم نبی کریم ﷺ کے (مبارک) قدموں تلے ہے۔
مزید برآں یہ کہ میں نے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ میں نے تو اس کی پیروی کی ہے جومیرے رب کی طرف سے مجھے وحی کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد میں مخلوق کی دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ۔ ہر کوئی اپنے عمل کے بارہ میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا اور کوئی چھپی ہوئی چیز بھی اللہ پر مخفی نہیں‘‘۔ (الاستفتاء ، ضمیمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحات ۶۳۶ تا ۶۳۸)
(۲)۔ایک اور عربی تحریر میں فرماتے ہیں :
ترجمہ: یقیناًہم مسلمان ہیں ۔ اللہ کی کتاب فرقان پرہمار ا ایمان ہے ۔ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے آقاو مولا محمد (ﷺ) اس کے نبی اوررسول ہیں اور یہ کہ آپ بہترین دین لے کر آئے ہیں ۔نیز ہمارا ایمان ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگروہی جس نے آپ کے فیض سے پرورش پائی اور آپ کے وعدہ نے اسے ظاہر کیا۔ ۔۔۔۔۔۔ہمارے نزدیک ’’ختم نبوت ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے کمالات ہمارے نبی جو کہ اللہ کے جملہ رسولوں اور انبیاء میں سب سے افضل ہیں ، پرختم ہو گئے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگامگر وہی جو آپ کی امت میں سے ہو اور آپؐ کے کامل ترین پیروکارو ں میں سے ہو اورجس نے آپ ؐہی کی روحانیت سے جملہ فیوض حاصل کئے ہوں اور آپ ؐ ہی کی روشنی سے روشن ہواہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں کوئی غیر نہیں ہوتا اور نہ ہی غیرت کا کوئی سوال پیدا ہوتاہے اورکوئی اور نبوت نہیں بنتی اور نہ کوئی حیرت کی وجہ پیدا ہوتی ہے بلکہ احمد(ﷺ) ہی ہیں جو ایک اور آئینہ میں ہیں اورکوئی انسان اپنی اس تصویر پرغیرت نہیں کھاتا جو اسے اللہ تعالیٰ آئینے میں دکھاتاہے۔ شاگردوں اوربیٹوں پر بھلا کب غیرت بھڑکتی ہے۔۔۔۔
اس امت میں جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا مگراس نے یہ عقیدہ نہ رکھا کہ وہ ہمارے آقا و مولا خیرالبشر محمد(ﷺ )سے تربیت یافتہ ہے اور یہ یقین نہ رکھا کہ وہ اس اسوہ حسنہ کی پیروی کئے بغیر کچھ چیز نہیں اوریہ کہ قرآن کریم پرسب شریعتیں ختم ہوگئیں توایسا شخص یقیناًہلاک ہو گیا اوراس نے اپنے آپ کو کافروں اوربدکاروں میں شامل کرلیا ۔
جوشخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے مگر یہ ایمان نہ رکھے کہ وہ آپ ؐ کی امت میں سے ہے اور یہ کہ اس نے جوکچھ بھی پایا آپ ؐ ہی کے فیضان سے پایا اور یہ کہ وہ آپ ؐ ہی کے بستان کا پھل ہے اور آپ ہی کی موسلادھار بارش کا قطرہ ہے اور آپ ہی کی چمکار کی لَو ہے تو ایسا شخص لعنتی ہے ۔ اس پراوراس کے انصار ومددگار اور پیروکار ہیں اللہ کی لعنت ہے ۔(مواہب الرحمن ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۸۵تا ۲۸۷)
(۳)۔ ایک اورجگہ فرمایا :
ترجمہ: اے مردان میدان اور فقہاء زمان اور علماء عصرِ حاضر ، اور فضلاء عالَم ، آپ لوگ مجھے ایک ایسے شخص کے بارہ میں فتویٰ دیں جو کہتاہے کہ میں اللہ کی طرف سے ہوں اوراس کے لئے خدا کی حمایت اس طرح ظاہر ہوئی ہے جیسے چاشت کے وقت کا سورج،اور اس کی صداقت کے انوا ر اس طرح روشن ہیں جیسے چودھویں کا چاند ۔ نیز اس کی خاطر اللہ نے روشن نشان دکھائے ہیں اور جس کام کو بھی کرنے کا اس نے ارادہ کیا خدا اس میں اس کی مدد کے لئے کھڑا ہو گیا ۔ نیز ا س نے ا س کی دعاؤں کو سنا ، خواہ وہ احباب کے بارہ میں تھیں یا دشمنوں کے بارہ میں ۔ یہ بندہ کوئی بات نہیں کہتامگر وہی جو نبی کریم ﷺ نے کہی ہو اور وہ ہدایت سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالتا ۔ یہ شخص کہتاہے کہ یقیناًاللہ نے مجھے اپنی وحی کے ذریعہ نبی کا نام دیاہے ، نیزقبل ازیں بھی ہمارے رسول مصطفی کی زبان مبارک سے مجھے نبی کا نام دیا گیاہے۔ اورنبوت سے اس کی مراد بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ پاتاہے اور اللہ سے بکثرت غیبی خبریں پاتاہے اوربکثرت وحی پاتاہے۔ نیز کہتاہے کہ نبوت سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو پہلے صحائف میں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا درجہ ہے جو ہمارے نبی خیرالوریٰ کی پیروی کئے بغیر نہیں مل سکتا ۔ اورجس کوبھی یہ درجہ ملتاہے ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ ایسا کلام کرتاہے جوبہت زیادہ اور بہت واضح ہوتاہے ۔ مگرشریعت اپنی اصل حالت پر ہی رہتی ہے ۔ نہ اس سے کوئی حکم کم ہوتاہے ، نہ اس میں کسی ہدایت کی زیادتی ہوتی ہے۔ نیز یہ مدعی کہتاہے کہ میں نبی اکرم ؐ کی امت کا ایک فرد ہوں ، اس کے باوجود اللہ نے نبوت محمدیہ کے فیوض کے تحت مجھے نبی کا نام دیاہے، اوراس نے میری طرف وہ وحی کی جو اس نے کی ۔پس نہیں ہے میری نبوت مگر آپؐ ہی کی نبوت۔ اور نہیں ہیں میرے دامن میں مگر آپؐ ہی کے انوار اور آپؐ ہی کی شعاعیں۔ اگر آپؐ نہ ہوتے تومیں ہرگز کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہوتا اور نہ ہی اس لائق تھا کہ میرا نام لیاجاتا۔
نبی تو اپنے روحانی فیض سے پہچانا جاتاہے ۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے نبی اکرمؐ کے فیض ظاہر نہ ہوتے جبکہ آپ ؐ سب نبیوں سے افضل اورفیض رسانی میں سب سے بڑھ کر اور درجہ میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ اُس دین کی بھلاحقیقت ہی کیاہے جس کا نو ر دل کوروشن نہ کرے اور جس کی دوا پیاس نہ بجھائے اور جس کا وجود دلوں کو نہ گرمائے اور جس کی طرف کوئی ایسی خوبی منسوب نہ کی جاسکے جس کا ظاہر ہونا حجت تمام کردے۔
پھر ایسا دین چیز ہی کیا ہے جو مومن کو کفروانکار کرنے والے سے ممتاز نہ کر دے اور جس میں داخل ہونے والا ایسا ہی رہے جیسا کہ اس سے نکل جانے والا اور دونوں میں کوئی فرق ہی نظر نہ آوے ۔۔۔۔۔۔ جس نبی میں فیض رسانی کی صفت ناپید ہو اس کی سچائی پرکوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور اس کے پاس آ کر بھی کوئی اسے نبی نہیں کہہ سکتا ۔ اس کی مثال ایسے چرواہے کی سی نہیں جو اپنی بھیڑ بکریوں پر پتے جھاڑتا ہو اور انہیں پانی پلاتا ہو بلکہ وہ تو انہیں پانی اور چارہ سے دور رکھتاہے۔
اور تم جانتے ہو کہ ہمارا دین زندہ دین ہے اور ہمارے نبیؐ مُردوں کو جِلا بخشتے ہیں اور آپ ؐ آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح عظیم الشان برکات لے کر آئے ہیں ۔ کسی دین کی مجال نہیں کہ وہ ان اعلیٰ صفات میں اس کے آگے دم مار سکے۔اس نہایت روشن دین کے سواکسی اور دین میں یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ انسان سے اس کے حجابوں کا بوجھ اتارے اور اللہ تعالیٰ کے قصر اور اس کے دَر تک پہنچائے۔ اور اس بات میں شک کرنے والا اندھا ہی ہوگا‘‘۔ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲۔صفحہ ۶۸۸،۶۸۹)
(۴)۔ پھرآپ ؑ فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اورمیں اسی کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم ؑ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا اور پھر اسحقؑ سے اوراسمعیلؑ سے اور یعقوب ؑ سے اور یوسفؑ سے اورموسیٰ ؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی ﷺ سے ایسا ہمکلام ہواکہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی، ایساہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شر ف بخشا ۔ مگریہ شرف مجھے محض آنحضرت ﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت ﷺکی امت نہ ہوتا اورآپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگردنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا ۔ کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں ۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اوربغیر شریعت کے نبی ہو سکتاہے مگروہی جو پہلے امّتی ہو۔ پس اسی بناء پرمیں امتی بھی ہوں اورنبی بھی اور میر ی نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں ۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہرہوئی ہے۔ اور چونکہ میں محض ظلّ ہوں اور امّتی ہوں اس لئے آنجناب ؐ کی اس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔۔۔‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۱،۴۱۲)
(۵)۔اسی طرح آپ نے تحریر فرمایاکہ :
’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نا م سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویامیں نے اس نبوت کا دعویٰ کیاہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں ۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺکے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا ۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ اور میر ی نبوت آنحضرت ﷺ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیساکہ میرا نام نبی رکھا گیا ایساہی میرا 5 نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہرایک کمال مجھ کو آنحضرتﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۵۴۔ حاشیہ )
(۶)۔پھر فرمایا:
’’ ۔۔۔سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۱)
(۷)۔ نیزفرمایا:
’’ ۔۔۔دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۔ سو جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایاہے میں آدمؑ ہوں، میں نوحؑ ہوں، میں ابراہیمؑ ہوں، میں اسحقؑ ہوں، میں یعقوب ؑ ہوں، میں اسماعیل ؑ ہوں ، میں موسیٰؑ ہوں ، میں داؤدؑ ہوں ، میں عیسیٰ ؑ ابن مریم ہوں ، میں محمد ﷺ ہوں یعنی بروزی طورپر جیساکہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاء فرمایا یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں ۔ سو ضرور ہے کہ ہرایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔(تتمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۲۱)
(۸)۔پھرآپؑ فرماتے ہیں:
’’نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صدہا مرتبہ استعمال کیا ہے مگراس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الٰہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں ۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتاہے ۔لِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ۔ سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جوکثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھاہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں۔ اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے ۔مگر یہ نبوت آنحضرت ﷺکی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پرظاہر کی جائے اورآنحضرت ﷺ کی سچائی دکھلائی جائے‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ مطبوعہ لندن صفحہ ۳۴۱)
(۹)۔ پھر تحریر فرمایا :
’’۔۔۔ میں اس کے رسول پردلی صدق سے ایمان لایاہوں اور جانتاہوں کہ تمام نبوتیں اس پرختم ہیں اوراس کی شریعت خاتم الشرائع ہے مگرایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی و ہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے ۔وہ ختم نہیں کیونکہ و ہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہرہے اوراسی سے فیضیاب ہے۔۔۔‘‘۔(چشمہ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۰)

نبی ٔمجازی اور نبی ٔحقیقی کا اصل مفہوم

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے انکارمیں’’جماعت لاہور‘‘ کی طرف سے انٹرنیٹ پر ایک دلیل یہ دی گئی ہے کہ آپ نے خود فرمایاہے کہ میں مستقل نبی نہیں ہو ں بلکہ میں علی سبیل المجاز والاستعارہ نبی ہوں۔
اہل پیغام کا یہ دھوکہ کسی ایسے شخص پرتو شاید چل جائے جس نے حضور ؑ کی جملہ تحریرات نہ پڑھی ہوں مگران پرنہیں چل سکتا جنہوں نے حضرت اقدس ؑ کی جملہ تحریرات پڑھی ہوں اور جن کا آپ کی زبان یاقلم مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ پرسچاایمان ہو ۔ آپؑ نے خود ہرجگہ اپنے ’’غیرمستقل نبی‘‘ یا ’’مجازی نبی‘‘ یا علی سبیل الاستعارہ نبی‘‘ ہونے کی وضاحت فرمادی ہے ۔

اول

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آخری سفر لاہور کے دوران اپنی وفات سے چند روز قبل بعض معززین کو عشائیہ دیا جس میں آپ نے ایک خطاب فرمایا۔ آپ کی وفات سے تین روز قبل ’اخبار عام ‘لاہور نے یہ غلط خبر اڑائی کہ نعوذباللہ آپ نے اس لیکچر میں اپنے نبی ہونے کا انکار فرمایاہے ۔ حضور اقدس ؑ کو جونہی اس کا علم ہوا آپ نے فوراً اس اخبار کے مدیر کو ایک وضاحتی خط تحریر فرمایا ۔(یہ خط حضرت اقدسؑ نے۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا تھا اور ’’اخبار عام‘‘میں ہی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات کے روز شائع ہوا5 تھا)۔اس میں آپؑ نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
’’۔۔۔واضح ہو کہ اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہاہوں اوراب بھی ظاہر کرتاہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتاہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتاہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے معنے ہیں کہ میں مستقل طورپر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتاہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپناعلیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتاہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتاہوں اور آنحضرت ﷺکی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتاہوں، یہ الزا م صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٔ نبوت میرے نزدیک کفر ہے ۔ اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیاہوں کہ اس قسم کی نبوت کامجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پرتہمت ہے۔ اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتاہوں وہ صرف اس قدرہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتااور کلام کرتاہے۔ اور میری باتوں کاجواب دیتاہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتاہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پرکھولتاہے کہ جب تک انسان کواُ س کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر5 وہ5 اسرار نہیں کھولتا۔ اورانہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے ۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اوراگر میں اس سے انکارکروں تو میرا گناہ ہوگا۔اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتاہے تو میں کیونکر انکار کر سکتاہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔
مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتاہوں یا اسلام کا کو ئی حکم منسوخ کرتاہوں ۔ میر ی گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کرسکے ۔۔۔‘‘۔(اخبار عام ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء)
جہاں تک ’’نبی علی سبیل المجاز ‘‘ یا ’’نبی علی سبیل الاستعارہ‘‘ کا تعلق ہے تو گزشتہسطور میں مذکور حوالہ جات میں سے سب سے پہلے حوالہ میں آپ نے خود ہی وہیں اس کی وضاحت فرما دی ہے کہ:۔
’’ پس اب کسی کا حق نہیں کہ ہمارے رسول مصطفی ؐکے بعد مستقل طورپر نبوت کا دعویٰ کرے ۔ آپ ؐ کے بعد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ باقی ہے اور اس کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ آپ ؐکا متبع ہو ۔ آپؐ کی پیروی کے بغیر یہ بات بھی ممکن نہیں۔اوراللہ کی قسم مجھے یہ مقام نہیں ملا مگر مصطفوی شعاعوں کی پیروی کی بدولت اور میں مجازی طورپر نبی کا نام دیا گیاہوں نہ کہ حقیقی طورپر۔ پس یہاں نہ اللہ کی غیرت بھڑکتی ہے نہ اس کے رسول کی کیونکہ میں تو نبی کریم (ﷺ) کے پیروں تلے پرورش پاتاہوں اور میرا 5 یہ قدم نبی کریم ﷺ کے مبارک قدموں تلے ہے‘‘۔
کیا ان الفاظ میں حضورؑ نے خود ہی اپنے مجازی طورپر نبی ہونے کی وضاحت نہیں فرما دی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نہ میں مستقل (یعنی آزاد) نبی ہوں نہ شرعی میں نے رسول اللہ ﷺ کے زیر سایہ پرورش و تربیت پائی ہے اور آپؐ کے قدموں میں بیٹھنے کے طفیل ہی یہ مرتبہ مجھے ملاہے۔ ؂
اس نور پرفدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے، میں چیزکیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
پس جب اپنے مجازاً اور استعارۃً نبی ہونے کا مفہوم آپؑ خود بیان فرما رہے ہیں تو اہل پیغام کو قطعاً یہ حق نہ تھاکہ آپ کے کلمات مبارکہ کی تاویل کرتے خصوصاً ایسی تاویل جو آ پؑ کے بیان فرمودہ مفہوم کے سراسر خلاف ہو۔ یہ مذموم جسارت ، حددرجہ کی خیانت ہے اور خدا تعالیٰ کے دربار میں عجیب بے باکی۔

خود اُن کے گھر سے گواہ

اگر اہل پیغام کو حضوراقدس علیہ السلام کے یہ دو حوالے کافی نہ ہوں تو لیجئے ہم خود ان کے گھر سے گواہ پیش کردیتے ہیں ۔ ہماری مراد شیخ عبدالرحمن مصری صاحب سے ہے ۔انہوں نے جماعت احمدیہ سے اخراج کی سزا پانے سے پہلے کے زمانہ میں ایک بار ایک گواہی دی تھی جس میں وہ حضور اقدس ؑ کے ’’نبی علی سبیل المجاز‘‘ ہونے کی یہ تفسیر کرتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔میں اب بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علی سبیل المجاز ہی نبی سمجھتاہوں ، یعنی شریعت جدیدہ کے بغیرنبی ، اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی بدولت اور حضوؐر کی اطاعت میں فنا ہو کر حضوؐر کا کامل بروز ہوکر مقام نبوت کو حاصل کرنے والا نبی۔ میرے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیدہ تھا‘‘۔(عبدالرحمن ، ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ ۲۴؍اگست ۱۹۳۵ء)

دوم

امر واقع یہ ہے کہ حقیقت و مجاز کے الفاظ کا استعمال ایک نسبتی اور اضافی امر ہے ۔ ایک چیز اپنی ذات میں ایک حقیقت ہوتی ہے مگر ایک دوسری چیز کی نسبت سے وہ حقیقت نہیں رہتی بلکہ مجاز قرار پاتی ہے ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتب میں ’’حقیقی نبوت‘‘کی اصطلاح بعض مقامات پر تشریعی اور مستقل نبی کے معنوں میں استعمال فرمائی ہے اور بعض جگہ صرف تشریعی نبی کے معنوں میں ۔ ان معنوں اور اصطلاح میں ہم آپ ؑ کو حقیقی نبی قرار نہیں دیتے مگر ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا کامل ظل ہونے کے لحاظ سے آپ یقیناًکامل نبی تھے اور ’’کامل ظلّی نبوت‘‘بھی اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے ، چنانچہ حضوراقدس ؑ فرماتے ہیں:
’’ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس (یعنی آنحضرتﷺ) کی کامل پیروی سے ملتی ہے اورجو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے۔ وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل‘‘۔(چشمہ ٔ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۳۴۰)

’’حقیقی آدم‘‘ اور’’ حقیقی کتاب‘‘

مزید وضاحت کے لئے ہم ذیل میں حضرت اقدس ؑ کی ایسی تحریرات پیش کرتے ہیں جن میں آپ نے ’’حقیقی‘‘ اور ’’مجازی‘‘ کے الفاظ کا استعمال فرمایا ہے ۔ انشاء اللہ العزیز اس سے بات بالکل کھل جائے گی۔ آ پ فرماتے ہیں :
’’ہمارے نبیﷺ روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدمِ ثانی تھے ، بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے‘‘۔(لیکچر سیالکوٹ ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۷)
پھر آپؑ گزشتہ کتب سماویہ کا قرآن کریم سے موازنہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
’’وہ کتابیں حقیقی کتابیں نہیں تھیں بلکہ وہ صرف چند روزہ کارروائی تھی۔ حقیقی کتاب دنیا میں ایک ہی آئی جوہمیشہ کے لئے انسانوں کی بھلائی کے لئے تھی‘‘۔(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۱۵۲)
اب ’’اہل پیغام‘‘ بتائیں کہ جب حضور اقدس ؑ کے نزدیک نبی اکرم ﷺ ہی آدم حقیقی تھے توکیاحضرت آدم ؑ اپنی ذات میں درحقیقت آدم نہ تھے؟ نیز جبکہ حضور ؑ کے نزدیک تورات ،زبور، انجیل وغیرہ حقیقی کتب نہیں توکیا ان کتابوں کو لانے والے رسول اپنی ذات میں حقیقی نبی نہ تھے؟
حق یہ ہے کہ حضرت آدم ؑ بھی حقیقی نبی تھے اور تورات و زبور وانجیل لانے والے انبیاء بھی حقیقی نبی تھے۔ ہاں حضرت آدم ؑ ، نبی اکرم ﷺ کے مقابلہ میں حقیقی نبی نہ تھے ۔ اس طرح حضرت موسیٰ ، داؤد ،عیسیٰ اوردیگر انبیاء علیہم السلام گو سب اپنی ذات میں حقیقی نبی تھے مگرنبی کریم ﷺ کے مقابلہ میں حقیقی نبی نہ تھے اور جب وہ حقیقی نبی نہ تھے تو اس نسبت سے مجازی نبی تھے !! اورانہی معنوں میں حضرت مسیح موعودؑ بھی مجازی نبی تھے اگرچہ اپنی ذات میں وہ حقیقی نبی تھے ۔


حقیقی مہدی یا مجازی مہدی؟!

آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’حقیقی اور کامل مہدی دنیا میں صرف ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ جو محض امّی تھا‘‘۔(اربعین نمبر ۲۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۶۰)
’’کامل اورحقیقی مہدی دنیا میں صرف ایک ہی آیا ہے جس نے بغیر اپنے ربّ کے کسی استاد سے ایک حرف نہیں پڑھا‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۲۵۵)
کیا اہلِ پیغام اس تحریر کی بنا پر حضور اقدس ؑ کے حقیقی مہدی ہونے سے انکار کردیں گے؟
بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت مسیح موعود ؑ بھی اپنی ذات میں حقیقی مہدی ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی نسبت سے دوسرے تمام انبیاء کی طرح آپ کی حیثیت بھی ایک ظلّی اورمجازی مہدی کی ہے ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ اپنی ذات میں توحقیقی نبی ہیں لیکن نبی اکرم ﷺ کی نسبت سے آ پ مجازی نبی ہیں کیونکہ آ پ کو جو کچھ ملا وہ مجازی اور ظلی حیثیت ہی رکھتاہے۔ اسی لئے آپ نے اپنی کتاب’’ الاستفتاء‘‘ میں فرمایا :
’’سُمِّیْتُ نَبِیًّا مِنَ اللّٰہِ عَلٰی طَرِیْقِ الْمَجَازِ لَا عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ‘‘ کہ میرا نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجازکے طور پر نبی رکھا گیاہے نہ کہ حقیقی طورپر ۔ یعنی آپ نے مقام نبوت آنحضرت ﷺ کے طفیل اور واسطہ سے حاصل کیا اور آپ ظلّی نبی یا امّتی نبی ہیں، نہ کہ تشریعی یامستقل نبی جسے نبی اکرم ﷺ کی اتباع کی ضرورت نہ ہو۔
پس حضور کی تحریر میں ’’مجازی نبی‘‘ کے لفظ سے کسی کو نہ تو خود دھوکہ کھانا چاہئے اور نہ ہی دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں حقیقت اور امرواقع کو جھٹلانے کی خیانت کرنی چاہئے کیونکہ یہاں ’’مجاز‘‘ کا لفظ نسبتی چیزہے ۔ جو مقام بھی کسی امتی کوملتاہے وہ اپنی ذات میں باوجود حقیقت ہونے کے ، نبی کریم ﷺ کی نسبت سے مجازی یا ظلی یا طفیلی حیثیت اختیار کر جاتاہے ۔کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا ، بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی ﷺ کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتاہے ظلّی اور طفیلی طورپر ملتاہے‘‘۔(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۷۰)
یہ عبارت بالکل واضح ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ امت میں جو شخص مومن ہو وہ ظلّی طور پر مومن ہوتاہے۔ جو ولی ہو ، محدث ہو ، غوث ہو، قطب ہو، محدث ہو ، وہ یہ مرتبہ اور مقام ظلّی طور پر ہی حاصل کرتاہے ۔ پس ظلّی کا لفظ جس طرح ان مراتب کے حقیقی ہونے کی نفی نہیں کرتا بلکہ صرف واسطہ کو ظاہر کرتاہے ، اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے ’’ظلّی نبی‘‘ کی اصطلاح میں لفظ ’’ظلّی‘‘ صرف واسطہ کو ظاہر کرتاہے نہ کہ آپ کی نبوت کی نفی کرتاہے۔ یعنی اس سے صرف یہ مراد ہے کہ یہ مرتبہ آپؐ کو آنحضرت ﷺ کے طفیل ملا ہے۔

حقیقی مُحَدَّث یا مجازی مُحَدَّث؟

اہل پیغام ، ذرا توجہ فرمائیے! حضورؑ کی مندرجہ بالا تحریر کی رو سے تو ’’محدّثیت‘‘ بھی ظلی اور طفیلی طورپر ہی ملتی ہے اورحضرت اقدس بھی ظلی اور طفیلی طورپر ہی مُحَدَّث ٹھہرتے ہیں۔ پس آپ لوگ بتائیں کہ کیا آپ حضور اقدس ؑ کو صرف ظلّی اور مجازی اور طفیلی طور پر ہی ’’مُحَدَّث‘‘ مانتے ہیں یاحقیقی مُحَدَّث؟

حقیقی مسیح موعود یا مجازی مسیح موعود!؟

اسی طرح ’’اہل پیغام‘‘ سے درخواست ہے کہ حضور اقد س علیہ السلام کے درج ذیل اقتباس پر بھی ذرا غور فرمائیں:
’’یہ عاجز مجازی اورروحانی طورپر وہی مسیح موعود ہے جس کی قرآن اورحدیث میں خبر دی گئی ہے ‘‘۔ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۳۱)
دیکھیں یہاں آپ ؑ نے اپنی مسیحیت کے بارہ میں بھی لفظ ’’مجاز‘‘ بالکل اسی طرح استعمال فرمایا ہے جیسے اپنی نبوت کے بارہ میں استعمال فرمایا ہے ۔
’’اہل پیغام‘‘ بتائیں کہ وہ حضور اقدس ؑ کو حقیقی مسیح موعود مانتے ہیں کہ صرف مجازی مسیح موعود؟مگر یاد رہے کہ انہیں اس بات سے مفرّ نہیں کہ حضرت اقدس ؑ کوواقعۃً حقیقی مسیح موعوداور حقیقی مہدی معہود مانیں کیونکہ آپ ؑ فرماتے ہیں:۔
’’جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ‘‘۔ (کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۹)
حضور اقدس ؑ کی ان تحریرات سے بالکل واضح ہو گیاہے کہ غیر مستقل نبی، امتی نبی،ظلی نبی،مجازی نبی،بروزی نبی،طفیلی نبی،غیرحقیقی نبی ، ناقص نبی جیسی اصطلاحات سے آپ کی صرف یہ مراد ہے کہ آپؑ صاحبِ شریعت جدیدہ نبی نہیں یانبی کریم ؐ کی پیروی سے آزاد نبی نہیں ہیں بلکہ آپ نبی کریم ؐ کے کامل تابع نبی ہیں اور یہ کہ آپ کو یہ مرتبہ صرف اور صرف نبی کریم ﷺ کی کامل محبت اور کامل اتباع ہی کے طفیل ملاہے ۔ یہ خالص موھبت الٰہی تھی اورفیوض محمدیہ کا عظیم ثبوت ۔ ذٰلک فضلُ اللّٰہ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیم ۔(سورۃالجمعۃ)

ایک اہم سوال

اسی طرح ’’اہل لاہور‘‘ سے التماس ہے کہ درج ذیل دو اہم امور کا جواب دیں۔
اول ۔۔۔یہ کہ اگر حضور اقدس ؑ فی الواقع اور درحقیقت نبی نہ تھے تو آپ نے باربار لگاتار اور بڑی تاکید و اصرارکے ساتھ اپنے نبی ہونے کا اعلان کرکے کیوں امت مسلمہ میں ایک قیامت برپاکردی اور خود اپنے ہاتھ سے اپنے مشن کے خلاف روکیں کھڑی کردیں؟ سارے عالم اسلام بلکہ دوسرے ادیان کو بھی اپنے خلاف کیوں بھڑکایا؟ ایسی حرکت تو ایک عام سلیم العقل شخص بھی نہیں کرتا چہ جائیکہ وہ شخص ایساکرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل علم کی بنا پر اس زمانہ کی اصلاح کے لئے چنا تھا؟ کیا ان لوگوں کو خبر نہیں کہ آپ کا دعوی ٔنبوت ہی تو تھا جو آپ پر ایمان لانے کی راہ میں لوگوں کے لئے سب سے بڑی روک بن کر کھڑا ہو گیا تھا ؟ کیا انہوں نے پڑھا نہیں کہ بڑے بڑے جبہ پوش جو پہلے آپ کے ثنا خوان تھے (جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی سرفہرست ہیں) آپ کے دعوی ٔ نبوت سے ہی تو سیخِ پا ہوتے تھے اور کتنے ہی ایسے تھے جوآپ سے باربار مطالبہ کرتے رہے کہ صرف نبوت کا دعویٰ واپس لے لو تو ہم فوراً تمہارے ساتھ ہوجاتے ہیں؟
پس ہمارا سوال یہ ہے کہ حضور ؑ نے کیوں ایسا دعویٰ کیاجس کی آپ لوگوں کے زعم میں ایک وہم و خیال سے زیادہ حقیقت نہ تھی اورکیوں اس طرح ساری دنیا کو اپنے آپ سے متنفر کردیا اور یوں غلبہ اسلام کے دن بظاہر دور کردئیے ؟ ان مولویوں کے مطالبہ پر آپ نے اپنا دعویٰ ٔ نبوت کیوں واپس نہ لے لیا تاکہ یہ سب مولوی ، سجادہ نشین اورمفتیان دین اپنے پیروکاروں سمیت فوج درفوج آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور آپ ان کے ساتھ مل کر ان کے شانہ بشانہ غلبہ اسلام کے لئے کوشاں ہو جاتے جیسا کہ ’’اہل پیغام‘‘ نے جماعت مبایعین سے علیحدہ ہونے کے بعد ایسی بے سود کوششیں کیں؟
دوم۔۔۔ قطع نظر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی کیا حقیقت ہے اور کون سی شکل ہے، بات یہ ہے کہ جب آپؑ نے اپنی نبوت پر اس حد تک اور ا س زور کے ساتھ ،باربار اور مسلسل اصرار کیاہے تو آپ کی پیروی میں ’’اہل پیغام‘‘ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اورجو آ پؑ نے کہا ویسا کیوں نہیں کہتے اور جیسے آپ نے باربار اعلانات فرمائے ویسے اعلان یہ لوگ کیوں نہیں کرتے ؟آپؑ کی طرح پورا اور مکمل سچ کیوں نہیں بولتے ؟ اس میں سے کچھ بتاکر باقی کیوں چھپا دیتے ہیں؟آقا تو تا دم آخریں یہی اعلان کرتا رہا کہ ’’میں خداکے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا‘‘۔مگر یہ عجیب خدام ہیں کہ آقا ؑ کی نبوت کے انکار میں اتنے بے باک ہیں ۔اس بات کو ویسے ہی گناہ نہیں سمجھتے جسے آقا مرتے دم تک سمجھتا رہا۔ کیاان لوگوں کو اس مداہنت نے دنیا کے ہاں کچھ فائدہ دیا یا وہ سمجھتے ہیں کہ خداکے ہاں یہ بات انہیں کوئی فائدہ دے گی؟ ہرگز، ہرگزنہیں ۔ کیونکہ مداہنت خدا کو پسند نہیں ۔
یہ لوگ گمان کرتے تھے کہ ا س ’’ اقدام ‘‘ سے دوسرے مسلمان انہیں اپنی صفوں میں شامل ہونے دیں گے ۔ چنانچہ انہیں خوش کرنے کے لئے انہوں نے حضرت اقدس ؑ کی نبوت کا ہی انکار کر دیا حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ لوگ انہیں خوش کرتے ۔ مگر نتیجہ کیانکلا؟ یہ لوگ دوسرے مسلمانوں کی نظر میں کافر کے کافر ہی رہے اور ’’مُذَبْذبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ ‘‘ ہو کر نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔

خدا کے نام پر التماس

اس وسوسہ کے ردّ کے آخری حصہ میں ’’اہل پیغام ‘‘ سے درخواست ہے کہ خدا کے لئے ذرا ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کچھ سوچیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ حضور اقدس ؑ کے درج ذیل الہامات پر بھی خدارا ذراغور کریں کہ یہ بہت ڈرانے والے الہامات ہیں۔
۱۔۔۔۔’’وَقالُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴)
ترجمہ : اور انہوں نے کہا تورسول نہیں ہے۔ تو کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ بطور گواہ کافی ہے ، نیز وہ بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔
۲۔۔۔۔’’وَیَقُولُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلًا۔ سَنَأْخُذُہٗ مِنْ مَارِنٍ أَوْ خُرْطُوْمٍ‘‘۔(اربعین نمبر ۲ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۸۲)
ترجمہ: اور دشمن کہتاہے کہ تو رسول نہیں ہے ۔ ہم عنقریب اسے اس کی ناک یا تھوتھنی سے پکڑیں گے ۔
نیزان سے بڑے دردِ دل سے التماس ہے کہ درج ذیل آیات کریمہ کو پوری توجہ سے اور خدا سے ڈرتے ہوئے پڑھیں تا اس میں مذکور وعید کے نیچے نہ آویں۔
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًّا وَاَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا‘‘۔(النساء :۱۵۱،۱۵۲)
ترجمہ : یقیناًوہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کر دیں گے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ کی کوئی راہ اختیار کریں یہی لوگ ہیں جو پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے رُسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔


وسوسہ نمبر ۲

’’اہل پیغام‘‘ کا دوسرا وسوسہ یہ ہے کہ خلفاء اور جماعت مبایعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی تشریح بالکل آپ کی منشا کے خلاف کی ہے کیونکہ ان لوگوں نے درحقیقت آپ ؑ کو مستقل یعنی آزاد نبی تصور کر لیا ، دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور اپنے آپ کوامت مسلمہ سے الگ سمجھ لیا ۔ اس کے باوجود دھوکہ دیتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ ہم نے حضور اقدسؑ کوکبھی نبی کریم ؐ کی پیروی سے آزادنبی قرار نہیں دیا ، نہ ہی کسی مسلمان کو کافر کہا ہے سوائے اس کے جو ہماری تکفیر کر کے خود کافر بن جائے۔
اپنے اس الزام کی تائید میں’’اہل پیغام‘‘ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جماعت مبایعین نے دیگر مسلمانوں سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ نہ ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں ، نہ ان کا جنازہ ادا کرتے ہیں ، نہ ان سے شادیاں کرتے ہیں۔
نیز لکھاہے: ’’قادیانی حضرات‘‘ آپ سے اس بارہ میں کہیں گے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نے تو دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے منع فرمایا تھا !
مگر امر واقع یہ ہے کہ آپؑ نے صرف مخصوص حالات میں دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے یعنی صرف ایسے لوگوں کے پیچھے جو آپؑ کو کافر کہتے ہیں۔ جو تکفیر نہیں کرتے ان کے پیچھے نماز سے منع نہیں فرمایا۔
مندرجہ بالا اعتراضات بالکل اسی طرح انٹرنیٹ پر درج ہیں۔

جواب

حق یہ ہے کہ خلفاء احمدیت یا جماعت مبایعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو ہرگز ہرگز غلط رنگ میں پیش نہیں کیا ، نہ بگاڑا ہے ، نہ ہی آپ کو کبھی ’’آزاد نبی‘‘ قراردیا ہے ، نہ ہی دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیاہے ، نہ ہی امت مسلمہ سے اپنے آپ کو الگ قرار دیاہے، نہ ہی آپؑ کی تعلیمات سے سرمو انحراف کیا بلکہ بعینہ ان پرعمل کیاہے ۔مسئلہ نبوت تو گذشتہ سطور میں ذکر ہو چکا ۔باقی آئندہ سطور میں انشاء اللہ اس وقت روز روشن کی طرح کھل جائے گی جب ہم ان حقائق کو حسب ذیل عناوین اور ترتیب کے تحت پیش کریں گے : غیر احمدیوں سے شادی بیاہ ، غیر احمدیوں کا جنازہ ، مسئلہ تکفیر اور نمازباجماعت ۔

غیر احمدیوں سے شادی بیاہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام غیراحمدیوں سے شادی بیاہ کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
۔۔۔(۱)۔۔۔
’’غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتاہے ۔ اپنی لڑکی کسی غیراحمدی کو نہ دینی چاہئے ۔ اگر ملے تو بے بیشک لو ۔ لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے‘‘۔ (الحَکَم جلد ۱۲ پرچہ ۲۷ صفحہ ۱ تا ۳۔ تاریخ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ئ، ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۳۰)
یہاں آپ ؑ نے’’بلکہ اس میں توفائدہ ہے کہ ایک اورانسان ہدایت پا تاہے‘‘ فرما کر اپنے اس فتویٰ کی حکمت بھی بیان فرما دی ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت ،مرد کے مقابلہ میں جلد اور زیادہ اثر قبول کرتی ہے جبکہ وہ مرد پر اپنا اثر کم ڈال سکتی ہے۔ پس اگر ایک احمدی مرد کسی غیر احمدی لڑکی سے شادی کرے گا تو وہ آہستہ آہستہ اس کی نیک سیرت سے متأثر ہو کر احمدی ہو جائے گی ۔ لیکن اگر ایک احمدی بچی کسی غیر احمدی شخص سے بیاہی جائے گی تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ وہ اس کے زیر اثر احمدیت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے یا اس کی اولاد خاوند کے زیر اثر غیر احمدی ہو جائے ۔
۔۔۔(۲)۔۔۔
اسی طرح آپ ؑ نے ایک اشتہار دربارہ رشتہ ناطہ دیا جس میں فرمایا :
’’۔۔۔ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیرممکن ہو گئے ہیں جب تک کہ وہ توبہ کرکے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں۔ اور اب یہ جماعت کسی بات میں ان کی محتاج نہیں۔ مال میں ،دولت میں،علم میں ، فضیلت میں ، خاندان میں ، پرہیز گاری میں، خداترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں توپھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جوہمیں کافر کہتے اور ہمار ا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثناخواں اور تابع ہیں ۔ یاد رہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں ۔ جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑ ے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہنہیں ہوگا تب تک وہ ہم میں سے نہیں۔
سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راستباز کے لئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے ۔۔۔‘‘۔(اشتہار ۷؍جون ۱۸۹۸ء بعنوان’’اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتہار‘‘۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۰،۵۱)
۔۔۔(۳)۔۔۔
’’ایک شخص کی درخواست پیش ہوئی کہ میری ہمشیرہ کی منگنی مدت سے ایک غیر احمدی کے ساتھ ہو چکی ہے ۔اب اس کو قائم رکھنا چاہئے یا نہیں؟ فرمایا: ’’ناجائز وعدہ کو توڑنا اور اصلاح کرنا ضروری ہے ۔ آنحضرت ﷺنے قسم کھائی تھی کہ شہد نہ کھائیں گے ۔ خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایسی قسم کو توڑ دیا جاوے ۔ علاوہ ازیں منگنی تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن و قبح معلوم ہو جاویں۔ منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کو توڑنا گناہ ہو‘‘۔ (اخباربدر پرچہ ۷؍جون ۱۹۰۷ء ۔ ملفوظات جلد ۹صفحہ ۳۰۰،۳۰۱)
۔۔۔(۴)۔۔۔
ایک مرتبہ ایک دوست نے بذریعہ خط حضور اقدس ؑ سے عرض کی کہ میری غیر احمدی ہمشیرہ اپنے غیر احمدی بیٹے کے لئے میری بیٹی کا رشتہ مانگتی ہے۔ مجھے کیا کرناچاہئے ؟اس پر حضور اقدسؑ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کو جواب لکھوایا ۔ حضرت مفتی صاحبؓنے اس دوست کو لکھا کہ :
’’برادرم مکرم ! السلام علیکم۔ آپ کا خط ملا ۔ حضرت صاحب(مسیح موعودؑ ) کی خدمت میں ایک مناسب موقع پر پیش ہوا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ امر بالکل ہمارے طریق کے برخلاف ہے کہ آپ اپنی لڑکی ایک ایسے شخص کو دیں جو کہ اس جماعت میں داخل نہیں۔ یہ گناہ ہے ۔
فرمایا :ان کو لکھو یہی آپ کے واسطے امتحان کاوقت ہے ۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہئے ۔ صحابہؓ نے دین کی خاطر باپوں اور بیٹوں کو قتل کر دیا تھا۔ کیا تم دین کی خاطر اپنی بہن کو ناراض بھی نہیں کر سکتے؟
فرمایا :آپ کی بہن اور اس کا بیٹا بالغ عاقل ہیں۔ خدا کے نزدیک وہ مجرم ہیں کہ سلسلہ حقہ میں داخل نہیں ہوتے۔ ان کو سمجھاؤ ۔اگر سمجھ جائیں تو بہتر ورنہ خدا کو کسی کی کیا پرواہ ہے ۔پس یہ قطعی حکم ہے کہ جو لڑکا احمدی نہ ہو اس کو لڑکی دینا گناہ ہے۔والسلام ۔ عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ ۔ از قادیان ۱۹۰۷۔۴۔۱۷۔ (مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام مولوی فضل الرحمن صاحب۔ قصبہ ہیلاں ضلع گجرات)
کیاجماعت مبایعین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انہی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں؟

غیر احمدیوں کا جنازہ

جہاں تک غیر احمدیوں کی نماز جنازہ کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ جماعت مبایعین اس بارہ میں بھی سو فیصد ی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پرعمل کرتی ہے ۔ اس ضمن میں آپ کے چند فتاوی ٰ پیش ہیں:
۔۔۔(۱)۔۔۔
ایک بار آپؑ نے فرمایا :
’’رسول اللہ ﷺ نے ایک منافق کو کرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی۔ ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو۔ مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے ۔ اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھاہے کہ ہرایک کی پڑھ لی جائے ۔ ہاں اگرسخت معاند ہو یافساد کا اندیشہ ہو توپھرنہ پڑھنی چاہئے ۔ ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے ۔بطوراحسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر از جماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے ‘‘۔ (بدرجلد ۱پرچہ ۳ صفحہ ۱۸،۱۹۔ تاریخ ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۱۵۴)
۔۔۔(۲)۔۔۔
’’ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اوراکثر مخالف مکذب مرتے ہیں ، ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا کہ : ’’یہ فرض کفایہ ہے۔ اگرکنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہو جاتاہے۔ مگر اب یہاں ایک توطاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتاہے۔ دوسرے وہ مخالف ہے ۔خواہ نخواہ تداخل جائز نہیں ہے۔ خدا فرماتاہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اوراگر وہ چاہے گاتو ان کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے ۔ خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پراس سلسلہ کو چلا یاہے ۔ مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہو گا بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنوا ؤ گے ‘‘۔(بدر جلد ۲پرچہ ۱۷ صفحہ ۱۲۹،۱۳۰۔ مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳ء۔ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۰۵)
۔۔۔(۳)۔۔۔
’’سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : ’’اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں برا کہتا اور سمجھتاتھا تواس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے بشرطیکہ نماز جنازہ کاامام تم میں سے کوئی ہو ۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
فرمایا :’’ اگر کوئی ایسا آدمی جو تم میں سے نہیں اور اس کاجنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کاپیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کوترک کر و اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جاؤ‘‘۔ (الحکم جلد ۶نمبر۱۶۔ صفحہ ۷ پرچہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۷۶،۲۷۷)
۔۔۔(۴)۔۔۔
ایک اور موقعہ پر فرمایا :
’’اگرمُتَوَفّیّٰٰ بالجہر مکفّر اور مکذّب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علاّم الغیوب خداکی پاک ذا ت ہے‘‘۔ فرمایا :’’ جو لوگ ہمارے مکفّرہیں اور ہم کو صریحاً گالیاں دیتے ہیں ان سے السلام علیکم مت لو اور نہ ان سے مل کر کھانا کھاؤ ۔ ہاں خریدوفروخت جائز ہے۔ اس میں کسی کا احسان نہیں‘‘۔
’’جو شخص ظاہر کرتاہے کہ میں نہ اُدھر کاہوں اور نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے ۔ اور جو ہمارا مُصَدِّق نہیں اور کہتا ہے کہ میں ان کو اچھا جانتا ہوں وہ بھی مخالف ہے ۔ ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں ۔ ان کا یہ اصول ہوتا ہے کہ با مسلماں اللہ اللہ، با ہند و رام رام۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا ۔بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے۔ مگر یاد رکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دکھے گا‘‘۔(بدر جلد ۲پرچہ ۱۴ صفحہ ۱۰۵۔ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء ۔ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۹۴)
۔۔۔(۵)۔۔۔
اسی طرح اخبار’’ الحَکَم‘‘ میں مذکور ہے :
’’مرزا امام الدین جو اپنے آپ کو ہدایت کنندہ قوم لال بیگیاں مشہورکرتااورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا ۶؍جولائی کو فوت ہو گیا۔ چنانچہ اس کے جنازہ پر رسمی طورپر ہمارے معزز و مکرم دوست سید محمد علی شاہ صاحب بھی چلے گئے اورجنازہ پڑھ لینے کے پیچھے آپ کو اپنے اس عمل پر تاسّف ہوا اور آپ نے ذیل کا توبہ نامہ شائع کیا جو ہم ناظرین’’ الحَکَم‘‘ کی دلچسپی کے لئے درج کرتے ہیں کہ :
’’میں بذریعہ توبہ نامہ ہذا اس امر کو شائع کرتا ہوں کہ میں نے سخت غلطی کی ہے اور وہ یہ کہ میں نے غلطی سے مرزا امام الدین کا جو ۶؍جولائی کوفوت ہواہے اور جس نے اپنی کتابوں میں ارتداد کیاہے جنازہ پڑھا ۔ پس میں بذریعہ اشتہار ہذا یہ توبہ نامہ شائع کرتاہوں اور ظاہر کرتاہوں کہ میں امام الدین اور ان لوگوں سے بیزار ہوں جواس کے جنازہ میں شامل ہوئے اوربالآخر دعائے جنازہ واپس لیتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ کو واپس لیتاہوں اور خداتعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں۔ خاکسار ۔ محمد علی شاہ۔۔۔
اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
’’ کوئی شخص کسی بات پر ناز نہ کرے۔ فطرت انسان سے الگ نہیں ہوا کرتی۔ جس فطرت پرانسان اول قدم مارتاہے پھر وہ اس سے الگ نہیں ہوتا۔ یہ بڑے خوف کامقام ہے۔ حسن خاتمہ کے لئے ہر ایک کو دعاکرنی چاہئے۔ عمرکا اعتبار نہیں ۔ ہر شئے پر اپنے دین کو مقدم رکھو۔ زمانہ ایساآ گیا ہے کہ پہلے تو خیالی طورپر اندازہ عمرکا لگایا جاتاتھامگر اب تو یہ بھی مشکل ہے ۔ دانشمند کو چاہئے کہ ضرور موت کاانتظام کر ے ۔ میں اتنی دیر سے اپنی برادری سے الگ ہوں ۔میرا کسی نے کیابگاڑ دیا؟ خدا تعالیٰ کے مقابل پرکسی کو معبود نہیں بنانا چاہئے۔
ایک غیر مومن کی بیمار پرسی اور ماتم پرسی تو حسن اخلاق کانتیجہ ہے لیکن اس کے واسطے کسی شعائر اسلام کو بجا لانا گناہ ہے۔ مومن کاحق کا فرکو دینا نہیں چاہئے اور نہ منافقانہ ڈھنگ اختیار کرنا چاہئے‘‘۔ (الحکم جلد ۷پرچہ ۲۶ صفحہ ۱۰،۱۱ تاریخ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۴۴،۴۶)
جماعت مبایعین حضرت اقدس علیہ السلام کی انہی وصایا اورفتاویٰ پر اہل دنیا کی طعن و تشنیع سے بے پرواہ بدل و جان عمل کررہی ہے۔ چنانچہ عام طورپر ہم غیر احمدیوں کے جنازے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں لیکن استثنائی حالات میں ایسے غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھ بھی لیتے ہیں جو مخالف و مکذب ومکفر نہ ہوں بشرطیکہ امام احمد ی ہو۔ مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں ایک یورپین ملک میں ایک غیر احمدی فوت ہو گیا ۔ اس کے ورثاء وہاں نہ تھے اور نہ ہی کوئی اور مسلمان کہ اس کا جنازہ پڑھ سکے ۔ احمدی احباب کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے یہ صورتحال حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کی تو آپؒ نے فرمایا کہ اس کاجنازہ آپ لوگ پڑھیں کیونکہ کوئی مسلمان بغیر نماز جنازہ کے دفن نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ احمدی احباب نے اس غیراحمدی کی نماز جنازہ پڑھی۔


مسئلۂ تکفیر

جہاں تک مسئلہ تکفیر کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ’’اہل پیغام‘‘ کے سامنے ہم حضرت اقدس ؑ کا درج ذیل اقتباس پیش کرنے پرہی اکتفا کرتے ہیں اور ان سے التماس کرتے ہیں کہ اسے ذرا غور سے پڑھیں کہ آپ لوگوں نے اسے بھلا دیا ہے۔
حضوراقدس علیہ السلام معترضین کے مطاعن کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے پہلے ایک معترض کا اعتراض یوں درج کرتے ہیں :
’’سوال:حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اوراہل قبلہ کوکافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ ان مومنوں کے جوآپ کی تکفیر کرکے کافربن جائیں صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا۔ لیکن عبدالحکیم خان کو آ پ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے ۔ یعنی پہلے آپ تریاق القلوب وغیرہ میں لکھ چکے ہیں کہ میرے نہ ماننے سے کوئی کافرنہیں ہوتا۔ اوراب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتاہے‘‘۔ اس کے جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’الجواب: یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھیراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجودہے یعنی رسول اللہ ﷺنے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری امت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا۔ ۔۔۔۔۔۔ پھرجب کہ دو سو مولوی نے مجھے کافر ٹھیرایا اور میرے پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہی کے فتوے سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافرکہنے والا کافر ہو جاتاہے اورکافرکومومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتاہے تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہرایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کردیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا ۔ تب میں ان کو مسلما ن سمجھ لوں گا بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مُکذّب نہ ہوں ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’ اِنَّ المُنَافقِینَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّار‘‘۔(النساء ۱۴۶) یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے ۔اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ’مَا زَنَا زانٍ وَھُو مُؤمنٌ وَمَا سَرَقَ سَارقٌ وَھُوَ مُؤمِنٌ‘ یعنی کوئی زانی زناکی حالت میں اورکوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوتا۔ پھرمنافق نفاق کی حالت میں کیونکر مومن ہو سکتاہے ۔ اگر یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کہ کسی کوکافر کہنے سے انسان خود کافر ہو جاتاہے تو اپنے مولویوں کافتویٰ مجھے دکھلا دیں میں قبول کر لوں گا ۔ اوراگر کافر ہو جاتاہے تو دو سومولوی کے کفرکی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کردیں ۔ بعد اس کے حرام ہوگا کہ میں ان کے اسلام میں شک کروں بشرطیکہ کوئی نفاق کی سیرت ان میں نہ پائی جائے‘‘۔(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۷تا ۱۶۹)


نماز با جماعت

جماعت مبایعین کا غیراحمدیوں کے پیچھے خواہ وہ مُکفّر ومُکذّب ہوں یا نہ ہوں نماز نہ پڑھنا بھی خالصۃً حضور اقدس ؑ کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ انٹرنیٹ پر ’’اہلِ پیغام‘‘ کا یہ کہنا کہ حضور ؑ نے صرف تکفیر کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ،ایک باطل دعویٰ ہے ۔ اس کی قطعاً کوئی بنیاد نہیں ۔ حضور ؑ کے ارشادات اس ضمن میں ملاحظہ ہوں۔

امام الصلوٰۃ کے بارہ میں عام ارشاد ات

نماز باجماعت میں امام جو کردار ادا کرتاہے اس کی نزاکت بیا ن کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتاہے ۔ نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے ۔ نماز میں دعا قبول ہوتی ہے۔ امام بطور وکیل کے ہوتا ہے۔ اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا‘‘۔ (الحکم جلد۵ پرچہ ۲۸ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۱۸)
’’نماز دعا اور اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ مومن کے ساتھ کینہ جمع نہیں ہوتا ۔ متقی کے سوا دوسرے کے پیچھے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۱۰ صفحہ ۹۔ تاریخ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۲۵)

غیر احمدیوں کے پیچھے نماز

عام غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارہ میں حضورؑ کے بعض ارشادات ملاحظہ ہوں۔
’’ایک شخص نے بعد نماز مغرب بیعت کی اور عرض کیا کہ ’’الحَکَم‘‘ میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیر از جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو!؟ فرمایا: ٹھیک ہے۔ اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میں اکیلے پڑھ لو۔ کوئی حرج نہیں۔ اور تھوڑی سی صبر کی بات ہے ۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مسجدیں برباد کرکے ہمارے حوالہ کردے گا ۔ آنحضرت ﷺکے زمانہ میں بھی کچھ عرصہ صبر کرنا پڑا تھا‘‘۔ (بدر جلد ۱ پرچہ ۵،۶۔ صفحہ ۳۷۔تاریخ ۲۸؍نومبر و ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۴۰،۲۴۱)
*۔۔۔’’کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپؑ کے مرید نہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپؑ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے ؟ حضرتؑ نے فرمایا : ’’جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کرکے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ردّ کر دیاہے اوراس قدر نشانوں کی پرواہ نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لا پرواہ پڑے ہیں، ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتاہے’اِنَّمَا یَتَقبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْن‘۔ خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتاہے ۔ اس واسطے کہا گیاہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۱۰ صفحہ ۸۔ تاریخ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۱۵)
*۔۔۔ایک اور موقعہ پر فرمایا:
’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو ۔ بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتحِ عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے۔ دیکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چاردن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے ۔ تم اگر ان میں رَلے مِلے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتاہے وہ نہیں رکھے گا ۔ پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے ‘‘۔(الحکم جلد ۵ پرچہ ۲۹۔ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۲۱)
اے خدا کے پاک مسیح موعودؑ ! تو نے کیا ہی سچ اور حق فرمایا ۔ تیری دی ہوئی بشارت کے عین مطابق وہ جماعت جو تیری ان تعلیمات پر عمل پیرا رہی خدا نے اس میں برکت پر برکت ڈالی ۔ ان کی باربار نصرت کی۔ انہیں فتح عظیم کے بعد فتح عظیم عطا کی ۔ مگر وہ گروہ جس نے تیری ان وصایا کو پسِ پشت ڈال دیا اور غیروں میں ’’رَلے مِلے‘‘رہنے پر زور دیا ان سے برکت چھین لی گئی اور ناکامی و نامرادی ان کا مقدر بن گئی ۔

مخالف و معارض کے پیچھے نماز

حضور علیہ السلام نے فرمایا :
’’مخالف کے پیچھے نماز بالکل نہیں ہوتی ۔ پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتا ہے۔ نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے ۔ نماز میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ امام بطور وکیل کے ہوتاہے۔ اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۲۸۔ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۱۸)

مکفر و مکذب کے پیچھے نماز

’’دو آدمیوں نے بیعت کی ۔ ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : ’’وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں ۔ اگر ہم کافر نہیں ہیں تو و ہ کفر لوٹ کر ا ن پر پڑتاہے۔ مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہے۔ اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں‘‘۔(بدر جلد ۱نمبر ۳۹ صفحہ ۲ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۔ ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۸۲)

متردّد کے پیچھے نماز

’’ اہل پیغام‘‘ نے انٹرنیٹ پر بڑی بے باکی سے اعلان کیا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کے پیچھے نماز سے منع نہیں فرمایا جو نہ تکذیب کرتے ہیں نہ تکفیر بلکہ بین بین ہیں۔ لیجئے ایسے متردّد لوگوں کے بارہ میں حضورؑ کے فتاویٰ ملاحظہ فرمائیے:
۔۔۔(۱)۔۔۔
’’پھر ان کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں وہ بھی انہیں میں شامل ہیں ۔ ان کے پیچھے بھی نماز جائزنہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جوہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے ‘‘۔ (بدر جلد ۱نمبر ۳۹ صفحہ ۲ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۔ ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۸۲)
۔۔۔(۲)۔۔۔
’’ سوال ہواکہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور ؑ کے حالات سے واقف نہیں تواس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ فرمایا :’’ پہلے تمہارا فرض ہے کہ اسے واقف کرو ۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو۔ اوراگر کوئی خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے۔ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔ (الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ صفحہ ۷ پرچہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۷۷)
۔۔۔(۳)۔۔۔
اسی طرح حضرت اقدس ؑ نے ایک اور موقع پر فرمایا :
’’ بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ ایسے لوگ جوبرا نہیں کہتے مگر پورے طورپر اظہار بھی نہیں کرتے محض اس وجہ سے کہ لوگ برا کہیں گے ، کیا ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں؟ میں کہتاہوں ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ ابھی تک ان کے قبول حق کی راہ میں ایک ٹھوکر کا پتھر ہے اور وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں جس کا پھل زہریلا اورہلاک کرنے والا ہے۔ اگر وہ دنیا داروں کو اپنا معبود اور قبلہ نہ سمجھتے تو ان سارے حجابوں کو چیر کر باہر نکل آتے اور کسی کے لعن طعن کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتے اور کوئی خوف شماتت کا انہیں دامنگیر نہ ہو تا بلکہ وہ خدا کی طرف دوڑتے ۔ پس تم یاد رکھو کہ تم ہر کام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوقِ خدا۔ جب تک یہ حالت نہ ہو جاوے کہ خدا کی رضا مقدم ہو جاوے اور کوئی شیطان اور رہزن نہ ہو سکے اس وقت تک ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے‘‘ ۔(الحکم جلد ۵ پرچہ ۳۷۔ صفحہ ۱تا ۳۔ تاریخ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۶۱)
۔۔۔(۴)۔۔۔
ایک عرب دوست قادیان تشریف لائے اور بیعت کے بعد ایک عرصہ تک حضور اقدس ؑ کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔ پھر اپنے ملک جانے سے قبل انہوں نے حضور اقدس علیہ السلام سے نماز کے بارہ میں خصوصی طورپر دریافت کیا۔ اس کی تفصیل ’’الحکم ‘‘ میں یوں درج ہے:
’’سیدعبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتاہوں وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟
فرمایا ’’مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔
عرب صاحب نے عرض کیا : وہ لوگ حضورؑ کے حالات سے واقف نہیں ہیں۔ اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی ؟فرمایا: ’’ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یا وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب‘‘۔
عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمار ے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے ؟ فرمایا :’’تم خدا کے بنو ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے اللہ تعالیٰ آ پ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتاہے ‘‘۔ (الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ صفحہ ۶۔ تاریخ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۴۲،۳۴۳)
۔۔۔(۵)۔۔۔
اسی طرح ایک اورمجلس میں فرمایا :
’’جو شخص ظاہر کرتاہے کہ میں نہ اُدھر کا ہوں نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے۔ اور جو ہمارا مصدق نہیں اورکہتاہے کہ میں ان کو اچھا جانتاہوں وہ بھی مخالف ہے ۔ ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہو تے ہیں ۔ ان کا یہ اصول ہوتاہے کہ ’با مسلماں اللہ اللہ، با ہندو رام رام ‘۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا ۔ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر یاد رکھو کہ جوشخص ایک طرف کا ہو گااس سے کسی نہ کسی کا دل ضرو ر دُکھے گا‘‘۔(بدر جلد ۲ پرچہ ۱۴ صفحہ ۱۰۵ تاریخ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء ۔ ملفوظات جلد ۵ مطبوعہ لندن صفحہ ۲۹۴)
۔۔۔(۶)۔۔۔
’’خان عجب خان صاحب تحصیلدار نے حضرت اقدس ؑ سے استفسار کیا کہ اگر کسی مقام کے لوگ اجنبی ہوں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا نہیں توان کے پیچھے نماز پڑھی جاوے کہ نہ؟
فرمایا ’’ ناواقف امام سے پوچھ لو ۔اگر وہ مصدق ہو تو نماز اس کے پیچھے پڑھی جاوے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتاہے اس لئے اس کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جاوے۔ جن لوگوں سے وہ جدا کرنا چاہتاہے باربار ان میں گھسنا یہی تو اس کے منشاء کے مخالف ہے ‘‘۔ (البدر جلد ۲ پرچہ ۵ صفحہ ۳۴ ،۳۵۔ تاریخ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء ۔ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۸)
’’اہل پیغام‘‘ کو ڈرنا چاہئے کہ وہ منشاء الٰہی کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ہمیں واضح نصیحت فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتاہے اس لئے اس کی منشاء کے خلاف کیوں کیا جائے۔ مگر’’اہل پیغام‘‘ اس نصیحت کے برخلاف عمل پر مصر ہیں اور بار بار پھر ان لوگوں میں ’’گھسنا‘‘ چاہتے ہیں ۔ ان کی یہ جسارت واقعی بڑی حیران کن ہے ؟
۔۔۔(۷)۔۔۔
تردّد میں پڑے لوگوں کے پیچھے نماز کے بارہ میں اس وقت تک ہم نے حضور اقدس ؑ کے جو ارشادات پیش کئے ہیں وہ جماعت کے ان اخبارات سے ماخوذہیں جو حضور اقدس ؑ کے زمانہ میں حضور ؑ اور جماعت کے ترجما ن تھے ۔ بلا شبہ یہ حوالہ جات ایسے واضح ہیں کہ ہر بات پوری طرح کھل گئی ہے ۔ تاہم آخر پر اب حضور اقدس ؑ کا ایک ایسا ارشاد پیش کیا جاتاہے جو آپؑ نے اپنے قلم مبارک سے اپنی ایک کتاب میں درج فرمایاہے ۔ یہ بڑا انذاری ارشادہے اورایسا واضح اور قطعی ہے کہ اس کا سمجھنا کسی پر مشکل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی بے جاتاویل کرسکتاہے سوائے اس کے جسے عناد وحسد اور تکبر نے پوری طرح اندھا کر دیا ہو۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کو جو الہامات ہوئے ان میں ایک الہام درج ذیل آیت قرآنیہ کی شکل میں تھا:’’تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّ تَبَّ‘‘۔ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’اس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتاہے ؟ پس یاد رکھو کہ جیساکہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پرحرام ہے اور قطعی حرام ہے کہکسی مکفّر اور مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو ۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُم یعنی جب مسیح نازل ہوگا توتمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلا م کرتے ہیں بکلّی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایساہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خد ا کا الزام تمہارے سر پرہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو ۔ جو شخص مجھے دل سے قبول کرتاہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتاہے اور ہریک حال میں مجھے حَکَم ٹھیراتاہے اور ہریک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتاہے۔ مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے ۔ پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کوجومجھے خدا سے ملی ہیں عزّت سے نہیں دیکھتا۔ اس لئے آسمان پراس کی عزّت نہیں ‘‘۔ ( اربعین نمبر ۳ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷۔ صفحہ ۴۱۷حاشیہ)


وسوسہ نمبر ۳

انٹرنیٹ پرایک وسوسہ یہ پھیلایاگیاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ میں خود فرمایاہے کہ’’ انجمن‘‘ ہی میرے بعد میرا خلیفہ ہوگی!

بڑاجواب

نہایت افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ان لوگوں نے حضور اقدس ؑ کے اس ارشاد کو اس کے سیاق و سباق سے الگ پیش کیا ہے اور یوں تحریف الکَلِم عن مواضعہ کی مکروہ جسارت کی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ راشد اور انجمن میں زمین و آسمان کافرق ہے۔’’اہل پیغام‘‘ کے لیڈر یقیناًاچھی طرح جانتے ہوں گے انہیں جاننا چاہئے کہ امر واقع یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں اپنے قرب وفات اور اپنے بعد خلافت قائم ہونے کا ذکر ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی وقت میں فرمایاہے جبکہ ’’انجمن‘‘ کے کاموں کا ذکر ایک علیحدہ عنوان کے تحت اور دوسرے وقت میں کیاہے ۔ اس اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے۔

رسالہ الوصیت کا تجزیاتی مطالعہ

یاد رکھنا چاہئے کہ موجودہ کتاب ’’الوصیت‘‘ کے ٹائیٹل سمیت ۳۴ صفحات ہیں اور یہ تین مختلف حصوں اور تین مختلف عناوین پرمشتمل ہے۔
پہلا حصہ: یہ اصل ’’وصیت ‘‘ہے اور ۲۴صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی تصنیف حضور اقدس ؑ نے ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو مکمل فرمائی اور ۲۴؍دسمبر کو اسے شائع فرما دیا ۔ اسی حصہ میں آپ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے کا ذکر فرمایاہے اور احباب جماعت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ (خلافتِ حقہ) ظاہر کرے گا۔
نیز فرمایا ہے کہ ایک فرشتے نے مجھے میری قبر کی جگہ رؤیا میں دکھائی ہے اور ایک اور جگہ دکھا کر بتایا ہے کہ یہ بہشتی مقبرہ ہے اور جماعت کے صلحاء اس میں دفن ہونگے ۔
اس حصہ اوّل کے مندرجات کچھ آگے چل کر ہم ذرا تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔
حصہ دوم: کتاب’’الوصیت‘‘ کے دوسرے حصہ کا عنوان ’’ضمیمہ متعلقہ رسالہ الوصیت ‘‘ہے جو سات صفحات پر مشتمل ہے ۔ جیساکہ اس کے نام سے ظا ہر ہے اس حصہ کو حضور نے بعد میں تحریرفرما کر اصل’’ رسالہ الوصیت ‘‘کے ساتھ ملحق کیا ۔ اسے حضورؑ نے ۶؍جنوری ۱۹۰۶ء کوتحریر فرمایا ہے اور اسی ماہ و سال میں مجلہ ریویو آف ریلیجنز اردو میں شائع کیا ۔
اس حصہ میں آپ ؑ نے ان صلحاء کے لئے جو اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونگے مختلف نصائح اور شرائط درج فرمائی ہیں ۔ نیز اس کمیٹی کے لئے نصائح اور تعلیمات درج کی ہیں جواس بہشتی مقبرہ کے کاموں کی نگران ہوگی۔ اس کمیٹی کا نام حضور نے’’ انجمن کارپرداز مصالح قبرستان‘‘ تجویز فرمایا۔ اس نام کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اس میں حضور ؑ نے اس انجمن کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو خوب واضح فرمادیا ہے۔
ہم آئندہ سطورمیں اس حصہ میں مذکور شرائط اور نصائح ذرا تفصیل سے درج کرکے تبصرہ کریں گے ۔ انشاء اللہ۔
حصہ سوم: یہ حصہ صرف تین صفحات پرمشتمل ہے ۔ یہ انجمن کے پہلے اجلاس کی رپورٹ پرمشتمل ہے جو حضرت مولوی حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ کی صدارت میں ہوا۔

حصہ اول کا خلاصہ

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیاہے اسی حصہ میں حضور اقدس ؑ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے کی خبر دی ہے اورجماعت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایاہے کہ خدا میرے بعد قدرت ثانیہ تمہارے لئے بھیج دے گا ۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے انبیاء کے ساتھ یہ سنت قدیمہ ہے کہ :
’’۔۔۔۔۔۔ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتاہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اورتشنیع کا موقعہ دے دیتاہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتاہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتاہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔
غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتاہے۔
(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت دکھاتاہے۔
(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیداہوجاتاہے اوردشمن زور میں آ جاتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ا ن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کر تاہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتاہے ۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتاہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتاہے جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے ۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کانمونہ دکھایا اوراسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھا م لیا اوراس وعدہ کو پورا کیاجو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
۔۔۔سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتاہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے ۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اوراس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا ۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں ۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھرخدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتاہے کہ میں اس جماعت کو جوتیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دو ں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تابعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے ۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے ۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی ۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اوروجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہرہونگے ۔سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہوکردعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایساقادر خدا ہے‘‘۔(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۴ تا ۳۰۶)
پھراس کے بعد اسی حصہ اول میں بہشتی مقبرہ کے سلسلہ میں انجمن کی ضرورت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’اس قبرستان کی زمین موجودہ بطور چندہ کے میں نے اپنی طرف سے دی ہے لیکن اس احاطہ کی تکمیل کے لئے کسی قدر اور زمین خریدی جائے گی جس کی قیمت اندازاً ہزار روپیہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔ سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتاہے و ہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے ۔۔۔۔۔۔ بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہئے ۔ لیکن اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا ۔ اس صورت میں ایک انجمن چاہئے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتارہے گا اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں ‘‘۔ ( الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۸)

حصہ دوم کا خلاصہ

قبل ازیں ہم یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ اس حصہ میں حضرت اقدس ؑ نے ان صلحاء جماعت کے لئے کچھ مزید شرائط درج کی ہیں جو اپنے اموال اور جائیدادوں کا ایک حصہ اشاعت اسلام کے لئے وقف کرنے کے لئے تیار ہوں اور یوں نظام وصیت میں داخل ہو کر ’’بہشتی مقبرہ ‘‘ میں دفن ہونے کے خواہشمند ہوں۔
اسی طرح اس حصہ میں آپؑ نے ’’بہشتی مقبرہ‘‘کے کاموں اور ان موصیان کے اموال کے حساب کتاب اور نگرانی کرنے والی اس ’’انجمن‘‘ کے لئے بھی مزید ہدایات درج کی ہیں ۔ یہ کل ۲۰شرائط ہیں ان میں سے چند اہم شرائط درج ذیل ہیں:
*.... ’’انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہوگا اس کواختیار نہیں ہوگاکہ بجز اغراض سلسلہ احمدیہ کے کسی اور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے اور ان اغراض میں سے سب سے مقدم اشاعت اسلام ہوگی ۔ اور جائز ہوگاکہ انجمن باتفاق رائے اس روپیہ کوتجارت کے ذریعہ سے ترقی دے‘‘۔ (شرط نمبر ۹)
*.... ’’انجمن کے تمام ممبر ایسے ہونگے جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں اور پارسا طبع اوردیانت دار ہوں۔ او ر اگرآئندہ کسی کی نسبت یہ محسوس ہوگا کہ وہ پارسا طبع نہیں ہے یا یہ کہ وہ دیانتدار نہیں یایہ کہ وہ ایک چالباز ہے اوردنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتاہے تو انجمن کا فرض ہوگا کہ بلا توقف ایسے شخص کو اپنی انجمن سے خارج کر ے اوراس کی جگہ اورمقرر کرے‘‘۔( شرط نمبر ۱۰)
*.... ’’ چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے انجمن کو دنیاداری کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا اوراس کے تمام معاملات نہایت صاف اور انصاف پرمبنی ہونے چاہئیں‘‘۔(شرط نمبر ۱۳)
*.... ’’یہ ضروری ہوگاکہ مقام اس انجمن کاہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے۔ اور جائز ہوگا کہ وہ آئندہ ضرورتیں محسوس کر کے اس کام کے لئے کوئی کافی مکان تیار کریں‘‘۔( شرط نمبر ۱۵)
*.... اسی حصہ دوم کے آخرپر آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’ میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں بلکہ تم اشاعت دین کے لئے ایک انجمن کے حوالے اپنے مال کروگے اوربہشتی زندگی پاؤ گے ‘‘۔(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۲۵۔۳۲۶۔ ۳۲۹)

منطقی نتائج

’’الوصیت ‘‘کے حصہ اول و دوم میں مذکوراہم امور کایہ خلاصہہے جسے پڑھنے کے بعد ایک دیانتدار شخص لازمی درج ذیل نتائج اخذ کرے گا :
۱۔۔۔: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اصل رسالہ الوصیت (یعنی حصہ اول) تحریر اور شائع فرمانے کے تقریباً دو ہفتوں بعد اس کا حصہ دوم تحریر فرما کر طبع فرمایا اور اسے الوصیت کا ضمیمہ قرار دیا۔
۲۔۔۔: حصہ اول میں آپ ؑ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے اور وفات کے بعد قدرت ثانیہ کے ظہور کی خبردی ۔ پھر اسی حصہ اول ہی میں آپ نے اس کمیٹی یعنی انجمن کے قیام کی ضرورت کا ذکر فرمایا جس نے بہشتی مقبرہ کے کام اور اموال سنبھالنے تھے ۔جیسا کہ اس کے نام سے بھی عیاں ہے ۔
۳۔۔۔: باوجودیکہ آپؑ نے اس حصہ اول میں اپنے قرب وفات اور ’’ انجمن‘‘ کے قیام کا بھی ذکر فرمایا ہے مگر آپ نے یہاں قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ ’انجمن‘ آپ ؑ کی خلیفہ ہوگی۔
۴۔۔۔: بلکہ اس کے برعکس آپؑ نے (اس حصہ اول میں ) اپنے قرب وفات کا ذکر فرما کر قدرت ثانیہ کے ظہور کی بشارت دی ہے ۔ پھر یہ بتانے کے لئے کہ ظہور قدرت ثانیہ سے آپ ؑ کی کیا مراد ہے ، آپ ؑ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی مثال دی تاکہ کسی قسم کا التباس واشکال نہ رہے ۔ گویا بتایاکہ جیسے
نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فردِ واحد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بطور خلیفہ کھڑا کیا ، ایسے ہی میرے بعد بھی فردی خلافت ہی ہوگی یعنی ایک فرد واحد میرا خلیفہ ہوا کرے گا نہ کہ کوئی انجمن یاکمیٹی۔ ’’انجمن ‘‘ کو ہرگزقدرت ثانیہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ابوبکر سے مشابہت رکھتی ہو ۔
۵۔۔۔: ’’انجمن‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلیفہ قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ ’’انجمن‘‘ تو آپ ؑ کی زندگی میں ہی موجود تھی اور آ پؑ کے ساتھ کام کر رہی تھی ۔ مگر حضور ؑ تو فرماتے ہیں ’’وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں‘‘۔
۶۔۔۔:جماعت احمدیہ کو ’’قدرت ثانیہ ‘‘ کے بغیر چارہ نہیں ۔ بالفاظ دیگر جماعت احمدیہ میں خلافت کا وجود لازمی وحتمی ہے کیونکہ حضور ؑ اعلان فرماتے ہیں کہ انبیاء کی وفات کے بعد ’’ قدرت ثانیہ‘‘ کا ظہور خدا کی قدیم سنت ہے اور’’ اب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے ‘‘۔
اس سے اہل لاہور کا یہ دعویٰ بھی باطل ہو گیا کہ احمدیت میں خلافت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی ۔
۷۔۔۔: نیز یہ بھی طے ہوگیا کہ جماعت احمدیہ میں فردی خلافت ہمیشہ رہنی چاہئے کیونکہ آپ قدرت ثانیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ ’’ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی‘‘۔
اس سے اہل پیغام کا یہ دعویٰ بھی باطل ہو گیا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے بعد کسی کو خلیفہ منتخب کرنے کی حاجت نہیں ۔
۸۔۔۔: یہ جملہ امور مجموعی طورپر یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ؑ کے ارشاد : ’’چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے انجمن کو دنیادار ی کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا ‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہ تھا کہ ’’انجمن‘‘ آپ ؑ کے بعدعام معروف معنی میں آپ کی خلیفہ سمجھی جائے گی ۔ اس سے آپ ؑ کی مراد صرف اتنی تھی کہ ’’انجمن‘‘بہشتی مقبرہ کے معاملات اور اموال کی نگرانی میں آپ کی نیابت کرے گی جیسا کہ اس نام سے عیاں ہے جو آپ ؑ نے اس انجمن کو دیا یعنی ’’انجمن کارپرداز مصالح قبرستان‘‘۔ سواس انجمن کا دائرہ کار صر ف اور صر ف بہشتی مقبرہ کے انتظامات و اموال تک محدود تھا ۔
پس کجا یہ کہ ’’انجمن ‘‘بہشتی مقبرہ اور اس کے انتظامات اور اموال کی نگرانی کرنے میں حضور اقدس ؑ کی مددگار اور مشیر کے طورپر کام کرے اور کجا یہ کہ و ہ خود کو خلیفۃ المسیح سمجھ بیٹھے ۔

بابرکت مقام سے فرار

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بڑا فضل کیا تھا کہ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے قرب سے نوازا۔ حضور ؑ نے ذرہ نوازی کرتے ہوئے جماعت کے کاموں میں انہیں اپنا معین و مددگار بننے کا شرف بخشا مگر یہ الٹے کفران نعمت کر بیٹھے ۔ یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ’’خلیفۃ اللہ کی جانشین ، انجمن‘‘ کے دفاع کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ مسیح پاک کی مبارک بستی قادیان دارالامان سے بھاگ نکلے۔
لاہور میں جا کر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی اور مسیح پاک کا یہ واضح ارشادبھلا دیا کہ ’’یہ ضروری ہوگاکہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے ‘‘۔
مگر وہ جماعت جوخلفاء احمدیت کے تابع ہے ( اور جسے اب یہ لوگ ہمارے اور اپنے آقاحضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کی نقل کرتے ہوئے قادیانیت،قادیانیت کہہ کر پکارتے ہیں ) اس مبارک مقام قادیان دارالامان سے نہایت ہولناک حالات کے باوجود ہمیشہ چمٹی رہی اور برکت پاتی رہی۔ اس نے بڑی دلیری سے اور بڑی قربانیاں دے کر اس مقام کی حفاظت کی خصوصاًتقسیم ہند کے خونی فسادات کے دوران، اورمسیح پاک کی وصیت کے مطابق قادیان ہی کو اپنا مرکز بناکر وہیں سے اسی ’’انجمن‘‘ کوچلارہی ہے جس کی بنیاد اس مردِ خدا نے خود رکھی تھی۔

نصیحت ہے غریبانہ

’’اہل پیغام‘‘ کے انٹرنیٹ پر پھیلائے ہوئے شبہات کے جواب سے اب ہم بحمداللہ فارغ ہو چکے۔ خدا گواہ ہے کہ ہماری اس گفتگو کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہ تھا بلکہ ہمار امقصد صرف اور صرف دو امور تھے ۔
اول ۔ یہ کہ حق کے دفاع کے فرض سے حق با ت کہہ کر سبکدوش ہو جائیں خواہ وہ کسی کو قدرے کڑوا لگے۔
دوم۔ یہ کہ سرور دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف کسی طرح بھی منسوب ہونے والوں میں سے جس کوبچایاجا سکتاہے بچایاجائے ۔
اور چونکہ سچی اور پرخلوص نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے اور ہم دونوں جماعتوں کے پیارے مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں کہ: جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار، اس لئے لاہور کے اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں سے صدق دل سے التماس ہے کہ وہ خدا کے لئے اس کی فعلی شہادت پر ذرا نظرکریں ، یعنی یہ دیکھیں کہ خداتعالیٰ نے ہم دونوں گروہوں سے کس طرح کا سلوک کیاہے تا وقت ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے پہلے انہیں علم ہو جائے کہ حق کس کے ساتھ ہے ۔
اے بھائیو! قرآن کریم تو باربار اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتاہے کہ جب بھی حق و باطل آپس میں ٹکرائیں گے تو یہ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو چھوڑ کر اہل باطل کی مدد کرے ۔ ہو نہیں سکتا کہ یہ دونوں فریق معرکہ آراء ہوں پھر اللہ تعالیٰ طیب و خبیث میں فرق نہ کردے۔ اگروہ ایسا نہ کرے تودنیا اندھیرہو جائے،ہر بات مشتبہ ہو جائے اور مخلوق گمراہی اورکفرکے گڑھے میں پڑی رہے حالانکہ اللہ اپنے بندوں کے لئے کفروضلالت پسند نہیں کرتا۔
قرآن کریم نے متعددمقامات پر اس سنت الٰہی کا ذکرکیاہے ۔ چنانچہ فرمایا : ’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ‘‘۔(سورۃ المجادلہ۲۲) یعنی اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔
پھر فرمایا :’’اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ‘‘ ۔ (مومن :۵۲) یقیناًہم اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اِس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
نیز کفار کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :
’’اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَأتِی الْاَرْض نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا اَفَہُمُ الْغَالِبُوْن‘‘(انبیاء :۴۵)۔ پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم (ان کی )زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟ تو کیا وہ پھر بھی غالب آسکتے ہیں؟
سو خدا را دیکھیں کہ ہم دونوں فریقوں میں سے کس کو خداکی طرف سے نصرت کے بعد نصرت اور فتح کے بعد فتح اور ترقی کے بعد ترقی نصیب ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ گروہ جو’’ اہل پیغام‘‘ کے راہنماؤں کی نظر میں حق پر تھا برکتوں سے محروم کر دیا گیا ۔ ان کی زمین کم سے کم ہوتی چلی گئی ۔مگر وہ گروہ جسے ’’اہل پیغام ‘‘کے راہنماؤں نے ’’اہل باطل‘‘ قرار دیا اس کوملنے والی کا میابیوں کا شمار تو اب امر محال ہوگیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتح کے بعد فتح رکھ دی ۔ ہر میدان میں ان کا ساتھ دیا۔ انہیں اتنا بڑھایا اور پھلدار کیا کہ اب وہ دنیا کے کونے کونے میں پائے جاتے ہیں اور کروڑوں تک جا پہنچے ہیں اور بڑی تیزی سے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ عددی اکثریت و برتری اپنی ذات میں کوئی معنی نہیں رکھتی مگر خاکسار تو یہاں حق و باطل کے درمیان ہونے والے اس معرکہ کے نتیجہ کی طرف توجہ مبذول کرا رہا ہے۔ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ فتح ، اہل باطل کے نصیب میں آوے اور شکست اہل حق کا مقدر بن جائے؟ ہرگز نہیں۔ عقل اس کو رد ّ کرتی ہے، قرآن اس کے مخالف ہے، تاریخ انبیاء اس کے خلاف گواہ کھڑی ہے ۔
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ فریق جو تمہارے اکابر کے نزدیک ’’باطل‘‘ پرتھا اور ’’کمزور ‘‘ تھا وہ باوجود مشکلات کے مسلسل بڑھتا ، پھولتا اور پھلتا رہا اس کھیتی کی طرح جو اپنی کونپل نکالے پھر اُسے مضبوط کرے پھر وہ موٹی ہوجائے اور اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہوجائے اور کاشتکاروں کو خوش کردے تاکہ خدا ان کی وجہ سے کفار کو غیظ دلائے۔ یا اس کی مثال اس شجرہ طیبہ کی سی ہے جس کی جڑیں زمین میں خوب پیوستہ ہیں اوراس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ وہ اپنا پھل ہروقت اپنے رب کے حکم سے دیتاہے۔
مگر وہ فریق جو آپ کے اکابر کی نظر میں حق پر تھا ، طاقتور تھااور شروع میں عددی غلبہ بھی رکھتا تھا وہ فریق مسلسل انحطاط کا شکار رہا حتیٰ کہ اس شجرہ ٔ خبیثہ کی طرح ہو گیا جو اپنی اصل زمین سے اکھاڑ دیا گیاہو اور اسے کوئی استقرار نصیب نہ ہو ۔
آخر پر بڑے درد کے ساتھ مسیح پاک علیہ السلام ہی کے اس درد بھرے شعر کو دہرا کر عرض کرتاہوں ؂
ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ
کوئی جو پاک دل ہووے دل وجاں اس پہ قرباں ہے
اعتراف: خاکسار نے اس مضمون کی تیاری میں حضرت قاضی محمد نذیر لائلپوری صاحب مرحوم کی تحریرات خصوصاً کتاب ’’غلبۂ حق‘‘ سے استفادہ کیا ۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگ ہستیوں کی نیکیوں اور خوبیوں کا ہمیں اور ہماری نسلوں کو وارث بنائے ۔آمین۔
نوٹ: حضور اقدس ؑ کی کتب و ملفوظات سے اقتباس شدہ حوالہ جات لندن میں طبع شدہ ایڈیشن کے مطابق ہیں۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۵؍فروری،۳؍مارچ،۱۰؍مارچ ۲۰۰۰ء )
 
مکمل تحریر >>