Sunday, January 25, 2015

مرزا صاحب کے حج پر نہ جانے پر اعتراض

ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟

فرمایا:۔

یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ248)
مکمل تحریر >>

Saturday, January 24, 2015

مرزا صاحب کے ریشمی ازار بند پہننے پر اعتراض کا جواب

معترضہ عبارت :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ  فرماتے ہیں:۔
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودعموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا ، اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ بھی پڑجائے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ، سوتی ازار بند میں آپ سے بعض اوقات گرہ پڑجاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص :142روایت 64)

جواب:۔
واضح ہونا چاہیے کہ بیماری کی صورت میں ریشم پہننا حرام نہیں ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے بیماری کی صورت میں ریشم استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ  رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ لِحِكَّةٍ بِهِمَا
(بخاری کتاب اللباس )
ترجمہ :۔ حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ نے حضرت زبیر اورحضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنھما کو خارش کی وجہ سے ریشم پہننے کی اجازت دی۔

اورسیرت المہدی کی مندرجہ بالا روایت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام  کو کثرت پیشاب کی شکایت تھی ۔آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا۔اسی لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواور گرہ بھی پڑ جائے تو کھلنے میں دقت نہ ہو  ۔
مکمل تحریر >>

Friday, January 23, 2015

آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی

مولانا دوست محمد شاہد صاحب ایک واقعہ درج فرماتے ہیں کہ
'' یہ عاجز دفتری کام میں مصروف تھا کہ یکایک حضرت مولانا ( مولانا عبدالمالک خاں ) کی السلام علیکم کی آواز سنائی دی اور آپ ایک باریش بزرگ کے ساتھ کمرہ شعبہ تاریخ میں تشریف لائے اور فرمایا میں انہیں تم سے ملانے کے لیے لایا ہوں ۔ میرے معزز مہمان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے ۔ کوئی ایک مختصر سی بات سنا دیجیے ۔ میں نے ان بزرگ پر نگاہ ڈالی تو حق تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ سیال شریف والوں کے مرید ہیں مگر ہیں بہت شریف مزاج ۔ یہ ذہن میں آتے ہی خاکسار نے عرض کیا خدا کے فضل و کرم سے آپ بھی آنحضرتﷺ کو احمد یقین کرتے ہیں لہٰذا میری ادب کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ آپ اپنے تئیں ہمیشہ احمدی کہا کریں ۔ جھٹ بولے میں احمدی تو ہوں مرزائی ہرگز نہیں ۔ یہ سنتے ہی میں نے انیسویں صدی کے نامور چشتی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین ؒ سیال شریف کے حسب ذیل ارشادات و ملفوظات عالیہ ان کے مطالعہ کے لیے سامنے رکھ دئیے ۔ ان میں لکھا تھا :

'' آپ کے پوتے صاحب زادہ محمد امین صاحب آئے ۔ آپ نے پوچھا اے بیٹے کون سی سورت پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا سورتِ نور ۔ آپ نے تبسم فرماتے ہوئے یہ شعر   ؎
صورت مرزے یار دی ساری سورت نور
والشّمس ، والضحٰی  پڑھیا  رب غفور 
بندہ نے عرض کیا مرزا سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ۔ رسولِؐ خدا ۔ اور تینوں مذکورہ سورتیں آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔ پھر فرمایا ۔ عاشقوں کا دستور ہے کہ وہ اپنے معشوق کو مرزا یا رانجھا کہہ  کر یاد کیا کرتے ہیں ۔ ''
( مرآت العاشقین  ، صفحہ ۲۷۲ )


وہ بزرگ یہ عبارت پڑھتے ہی پورے جوش سے فرمانے لگے ۔ آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی اور ساتھ ہی بتایا کہ میرا مسلک چشتی ہے اور میں سیال شریف سے تعلق ارادت رکھتا ہوں ۔ ''
مکمل تحریر >>

Thursday, January 22, 2015

کتاب تفسیر ابن عباس کی حقیقت

"تنوير المقباس من تفسير ابن عباس " کے نام سے  مشہور تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے ثابت نہیں ہے بلکہ   یہ جھوٹے طریق سے مروی اور من گھڑت تفسیر ہے جسے  کذب بیانی کرتے ہوئے سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب کردیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں اس کی جو سند لکھی ہوئی ہے اس میں کلبی کا ابو صالح اور ابو صالح کا سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کرنا ظاہر کیا گیا ہے اور یہ طریق سب سے زیادہ بدنام ترین اور جھوٹے راویوں پر مبنی ہے ۔


اب علماء کی اس سند کے بارے میں رائے آپ کو دکھاتے ہیں ، اس بارے میں بہت سے عربی حوالہ جات ہیں لیکن ہم نے کوشش کی ہے کہ صرف اردو حوالہ جات کو آپ کی آسانی کے لیے پیش کیا جائے ۔
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درمنثور کے آخر پر اس سند کے بارے میں یوں بیان فرمایا ہے ۔
'' کلبی کو ( علماء جرح و تعدیل نے) کذب سے متہم کیا ہے۔ وہ بیمار ہوئے ۔ تو انہوں نے اپنی حالت مرض میں اپنے اصحاب کو بتایا۔جو کچھ بھی میں نے تمہیں ابوصالح سے بیان کیا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔ '' ( تفسیر در منثور مترجم جلد ششم ، صفحہ 1203 )


بریلوی مسلک کے مولانا احمد رضاخان صاحب  نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے لکھا ہے 
'' یہ تفسیر کہ منسوب بسیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت، یہ بسند محمد بن  مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلۂ کذب ہے۔" (فتاویٰ رضویہ جلد 29، صفحہ 396)


اور دیوبندی مسلک کے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب، اپنی معروف کتاب "علوم القرآن" میں لکھتے ہیں
"ہمارے زمانے  میں ایک کتاب"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس" کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے، اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے ''سلسلۃ الکذب'' (جھوٹ کا سلسلہ) قرار دیا ہے لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔'' ( علوم القرآن ، صفحہ 458 )


اسی طرح غلام احمد حریری صاحب نے بھی اپنی کتاب '' تاریخ تفسیرومفسرین '' کے صفحہ 81 پر تفسیر ابن عباس کی سند کی حقیقت واضح کر کے اسے غیر معتبر ثابت کیا ہے۔


مکمل تحریر >>

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے الزام کا جواب

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے الزام کا جواب از ہادی علی چوہدری ۔۔

مکمل تحریر >>

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک از قاضی محمد نزیر صاحب فاضل

مکمل تحریر >>

احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک

احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک از جناب ملک عبدالرحمٰن صاحب خادم

مکمل تحریر >>

کتاب تفہیمات ربانیہ بجواب عشرہ کاملہ

کتاب تفہیمات ربانیہ از قلم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری ایک بہترین جواب ہے منشی محمد یعقوب صاحب پٹیالوی کی کتاب عشرہ کاملہ کا ، جو منشی صاحب نے اس دعویٰ کے شاتھ شائع کی تھی کہ ان کی کتاب لاجواب ہے ، مولانا ابو العطاء صاحب نے اپنی اس کتاب میں عشرہ کاملہ کے تمام اعتراضات کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور حضرت مسیح موعود و امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صداقت کے دلائل بھی پیش کیے ہیں ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, January 21, 2015

کتاب شیطان کے چیلے ( جن کو فخر ہے کہ ان پر شیطان نازل ہوتا ہے )

کتاب شیطان کے چیلے ( جن کو فخر ہے کہ ان پر شیطان نازل ہوتا ہے ) میں تمام شیطان کے چیلوں کے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں ، بے شک وہ کوئی غیر مقلد ہو یا مقلد ، دیوبندی ہو یا بریلوی ، کسی شیطان کا نام ڈاکٹر راشد علی ہے اور کسی کا پیر سید عبدالحفیظ ، اور الیاس ستار کے الزامات کا جواب بھی میں شامل ہے ۔



مکمل تحریر >>

کتاب راہ ھدیٰ بجواب قادیانیوں کو دعوت اسلام

یہ کتاب راہ ھدیٰ ایک دیوبندی مولوی یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب '  قادیانیوں کو دعوت اسلام ' کے جواب میں لکھی گئی ہے جس میں دیوبندی امت کے یہودی نما علماء کے حضرت مسیح موعود اور امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام پر کئے گئے بے بنیاد الزامات کا جواب دیا گیا ہے ۔



مکمل تحریر >>

اشتہار ''مولوی ثناءاللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ'' مباہلہ یا دعا ؟

حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے 15 اپریل 1907 ء کوایک اشتہار'' مولوی ثناءاللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ'' کے عنوان سے دیا ، جس کے مخاطب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اہلِحدیث کے مولانا ثناءاللہ امرتسری صاحب تھے ، اب اس اشتہار کو لے کر دیوبندی اور اہل حدیث جو جھوٹ بولتے ہیں اس کا ایک اہم ثبوت یہاں آپ کو دکھانا مقصود ہے ، دیوبندی اس اشتہار کو نقل کر کے اس کو صرف دعا قرار دیتے ہیں ( محمدیہ پاکٹ بک ، صفحہ ۵۸۲ )



اور دوسری طرف اہلِ حدیث اس اشتہار کو مباہلہ قرار دے کر مولوی ثناءاللہ امرتسری صاحب کو فاتح قادیان کا خطاب دیتے ہیں ، جبکہ یہ بات نہیں بتاتے کہ مولوی ثناءاللہ صاحب نے صاف انکار کردیا تھا اس مباہلہ سے ۔
'' قادیانی متنبیّ مرزا غلام احمد نے ۱۵ / اپریل ۱۹۰۷ کو مباہلہ کا اشتہار شائع کیا جس کا عنوان تھا : مولوی ثناءاللہ  کے ساتھ آخری فیصلہ۔۔ ''
( تذکرہ ابو الوفاء ، ص : ۹۶ )  ( برھان التفاسیر ، صفحہ ۲۵ )



مکمل تفصیل اور جواب کے لیے یہاں جائیں۔
مکمل تحریر >>

مرزا صاحب پر خدائی کا دعویٰ کرنے کا الزام اور اس کی حقیقت

حضرت مسیح موعود و امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے ایک خواب کا حوالہ دے کر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا ، آئیے پہلے وہ حوالہ دیکھ لیتے ہیں جو دیا جاتا ہے ۔
 رَاَیْتُنِیْ فِی الْمَنَامِ عَیْنَ اللّٰہِ  یعنی میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں ۔
(روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 564)
 ( تذکرہ ، صفحہ 152)



لیکن خواب کی تعبیر ہوتی ہے اور تعطیر الانام فی تعبیر المنام میں لکھا ہے کہ 
'' اگر کوئی شخص خود کو خدا بنا دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ آدمی صراط مستقیم پر چلے گا ۔''
(  تعطیر الانام فی تعبیر المنام ، صفحہ 51 )


مکمل تحریر >>

Tuesday, January 20, 2015

نام نہاد علماء کی علمی موت کا ثبوت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم کے ساتھ آسمان پر جانا اور واپس آنا ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر کوئی دلیل قرآن اور حدیث سے نہیں ملتی اور یہی مصیبت آج کے علماء کو پریشان کرتی ہے چاہے وہ مقلد ہوں یا غیر مقلد ، دیوبندی ہوں یا بریلوی ، اہل حدیث ہوں یا شیعہ ، جب بھی کوئی شخص ان سے اس بارے میں قرآن یا حدیث سے دلیل مانگتا ہے تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں اور بات کو بدل دیتے ہیں ، ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جب ایک شخص بریلوی مسلک کے بانی مولانا احمد رضا خان کے بیٹے مولانا حامد رضا خان کے پاس آیا اور سوال کیا کہ 
'' کوئی حدیث مرفوع متصل اس مضمون کی عنایت فرمائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بجسدہ العنصری و بحیات جسمانی آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور کسی وقت میں بعد حضرت خاتم النبیین ﷺ آسمان سے رجوع کریں گے  اور اس دوبارہ رجوع میں وہ نبی نہ رہیں گے  اور وہ نبوت یا  رسالت سے خود مستعفی  ہوں گے یا ان کو خدا تعالیٰ اس عہدہ  جلالیہ سے  معزول کر کے امتی بنا دے گا تو پہلے تو کوئی آیت بشروط متذکرہ بالا ہونی چاہیے  اور بعد اس کے کوئی  حدیث تا کہ ہم اس حالت تذبذب سے بچیں  اور جو آیت ہو اس میں لفظ حیات ہو خواہ کسی صیغے سے ہو ۔ یہاں کئی صاحب ایسے   ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر گفتگو کرتے ہیں  اور متوفیک  و فلما توفیتنی دو آیت پیش کرتے ہیں اور ان دونوں آیتوں کا ترجمہ حضرت رسول خدا ﷺ و ابن عباسؓ سے پیش کرتے ہیں اور سند میں صحیح بخاری اور اجتہاد بخاری موجود کرتے ہیں ، اب آپ ان آیتوں کے ترجمےجو کسی صحابی یا رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوں اور صحیح بخاری میں موجود ہوں عنایت فرمائیے اور دونوں طرف روایتیں ہر قسم کی موجود ہیں  ہم کو صرف قرآن شریف سے ثبوت چاہیے جس کے تواتر کے برابر کوئی تواتر نہیں ہے ۔  ''
( جامع الفتاویٰ جلد دوم صفحہ ۱۹ ، مرتبہ مولانا محمد اسلم علوی قادری رضوی )
بس پھر کیا تھا مولانا حامد رضا خان بریلوی تو پریشان ہوگئے اور بات کو کیسے بدل گئے وہ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔






مکمل تحریر >>

الگ کلمہ طیبہ بنانے کا الزام اور اس کی حقیقت

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ایک تصویر دکھا کر کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ قادیانی کلمہ ہے جس میں محمد کی جگہ احمد لکھا ہوا ہے ، اور وہ تصویر یہ ہے ۔


یہ افریقہ میں جماعت احمدیہ کی ایک مسجد ہے ، اس کی تصویر لے کر اس میں موجود کلمہ سے لفظ محمد کو بدل کر احمد بنا دیا جاتا ہے اور عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے کہ احمدیہ جماعت نےلا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بجائے لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ کلمہ بنا لیا ہے اور احمد سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں ، اس سفید جھوٹ پر میں تو یہی جواب دیتا ہوں کہ جھوٹ بولنے والے پر اللہ ، رسول ﷺ اور تمام فرشتوں کی لعنت ۔۔ اصل تصویر اس مسجد کی یہ ہے آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کلمہ کیا لکھا ہوا ہے ۔۔


اب آپ کو دکھاتے ہیں کہ ان الزام لگانے والوں کے علماء کی کتابوں میں کون کون سی قسم کا کلمہ موجود ہے ، پہلے تو آپ یہ دیوبندی کلمہ درود دیکھیں ۔ 


اب بریلوی امت کا کلمہ بھی دیکھیں ان کا بھی ایک الگ کلمہ ہے ۔ 


مکمل تحریر >>

Sunday, January 18, 2015

مباحثہ سار چور مناظرہ وفات مسیح

مباحثہ سار چور بر مسئلہ حیات و ممات مسیح علیہ السلام مابین مولانا جلال الدین شمس صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب


مکمل تحریر >>

دلچسپ علمی واقعات و مشاہدات

دلچسپ علمی واقعات و مشاہدات از مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت


مکمل تحریر >>

مقربان الہی کی سرخروئی

مقربان الہی کی سرخروئی روح کافر گری کے ابتلاء میں از مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت


مکمل تحریر >>

عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح ہتھیار

’’ایک شخص عبد الحق نام جو اپنے آپ کو صوفی ابوالخیر صاحب کے مرید بتلاتے تھے، چند طالب علموں کے ساتھ آئے۔ اَور بھی دہلی والے آموجود ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کہ کیا تم سب دہلی کے ہو؟ انہوں نے کہا۔ ہاں۔ پھر میاں عبد الحق صاحب نے سوال کیا کہ مَیں تشفّی کے واسطے ایک بات پوچھتا ہوں۔ حضرت نے اجازت دی۔

عبد الحق: کیا آپ اُس مسیح اور مہدی کو یا ددلانے والے ہیں جو کہ آنے والا ہے یا کہ آپ خود مسیح اور مہدی ہیں؟

حضرت اقدس: مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے اور پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت کی گواہی دی۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں قول اور فعل۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا قول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے۔ شبِ معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو دیگر گزشتہ انبیاء کے درمیان دیکھا۔ ان دو شہادتوں کے بعد تم اور کیا چاہتے ہو؟ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے صدہا نشانات سے تائید کی۔ جو طالبِ حق ہو اور خوف خدا رکھتا ہو اس کے سمجھنے کے واسطے کافی سامان جمع ہو گیا ہے۔ ایک شخص پہلی پیشگوئی کے مطابق، قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق عین ضرورت کے وقت دعویٰ کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہے کہ عیسائیت اسلام کو کھا رہی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے جو بات پیش کی ہے اس سے بڑھ کر کوئی اَور بات نہیں ہو سکتی۔ انیس سو سال سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور معبود ہے اور چالیس کروڑ عیسائی اس وقت موجود ہے۔ اس پر پھر مسلمانوں کی طرف سے اُن کی تائید کی جاتی ہے کہ بیشک عیسیٰ اب تک زندہ ہے، نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج ۔ سب نبی مر گئے پر وہ زندہ آسمان پر بیٹھا ہے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ اس سے عیسائیوں پر کیا اثر ہوگا۔

عبد الحق: عیسائیوں پر تو کوئی اثر ہو نہیں سکتا جب تک کہ شمشیر نہ ہو۔

حضرت اقدس: یہ بات غلط ہے۔ تلوار کی اب ضرورت نہیں ہے اور نہ تلوار کا اب زمانہ ہے۔ابتدا میں بھی تلوار ظالموں کے حملہ کے روکنے کے واسطے اٹھائی گئی تھی ورنہ اسلام کے مذہب میں جبر نہیں۔ تلوار کا زخم تو مل جاتا ہے پر حجت کا زخم نہیں ملتا۔ دلائل اور براہین کے ساتھ اس وقت مخالفین کو قائل کرنا چاہیے۔ مَیں آپ لوگوں کی خیر خواہی کی ایک بات کہتا ہوں۔ ذرا غور سے سنو۔ ہر دو پہلوئوں پر توجہ کرو۔ اگر عیسائیوں کے سامنے اقرار کیا جائے کہ وہ شخص جس کو تم خدا اور معبود مانتے ہو بیشک وہ اب تک آسمان پر موجود ہے۔ ہمارے نبی تو فوت ہو گئے پر وہ اب تک زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔ نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج۔ اگر ہم ایسا کہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اور اگر ہم عیسائیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیں کہ جس شخص کو تم اپنا معبود اور خدا مانتے ہو وہ مر گیا۔ مثل دوسرے انبیاء کے فوت ہو کر زمین میں دفن ہے اور اس کی قبر موجود ہے، اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ بحثوں کو جانے دو اورمیری مخالفت کے خیال کو چھوڑو۔ میں پروا نہیں کرتا کہ مجھے کوئی کافر کہے، دجّال کہے یا کچھ اور کہے۔ تم یہ کہو کہ ان ہر دو باتوں میں سے کونسی بات ہے جس سے عیسائی مذہب بیخ و بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے۔

اس تقریر کا میاں عبد الحق صاحب پر بہت اثر ہوا؛ چنانچہ فوراً کھڑا ہو کر حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ چومے اور کہا: میں سمجھ گیا۔ آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے۔ انشاء اللہ ضرور آپ کی ترقی ہو گی۔ یہ بات صحیح ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 492-494۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
مکمل تحریر >>

تبلیغ کی راہ میں مشکلات اور ان کا حل

عام طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہم لوگ تبلیغ کرنے سے جھجکتے ہیں اور اس ذمّہ داری کو اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یا تودینی علم کی کمی کا احساس ہوتا ہے یا پھر دوستوں سے تعلقات کی خرابی کا ڈر ہوتا ہے۔ تبلیغ کے متعلق اِن غلط فہمیوں کو دور کرنے کی یہاں کوشش کی جارہی ہے۔

کیا تبلیغ کے لئے عالمِ دین ہونا ضروری ہے؟


جب بھی کسی کو تبلیغ کرنے کے لئے کہا جائے تو فوری طور پر اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کس طرح کیا جائے کیونکہ مجھ میں تو تبلیغ کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے اندر دینی علم کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور انہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مخاطب کوئی ایسی بات پوچھ لے جس کا جواب انہیں نہ آتا ہو ۔یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ تبلیغ صرف علماءِ دین کا کام ہے۔ لفظ ’تبلیغ ‘ کا مادہ ’ بَلَغَ ‘ ہے جس کا مطلب ہے پہنچانا۔ اگر حکمت اور احسن رنگ میں صرف یہ پیغام پہنچادیا جائے کہ مسیح و مہدی علیہ السلام تشریف لا چکے ہیں اور اب دنیا کی نجات اسلام کو ماننے میں ہی ہے تو تبلیغ کا فرض پورا ہوجاتا ہے۔ اس پیغام کی حقانیت کو اپنے کردار و عمل سے تقویت پہنچانی چاہئے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے (متی 7:20)۔ ہمارا مسکراتا ہوا چہرہ، اعلیٰ کردار اور ہر ایک سے دوستانہ برتاؤ دوسروں میں ہمارے متعلق دلچسپی پیدا کرسکتا ہے اور اس طرح وہ ہمارے قریب آسکتے ہیں۔

کیا تبلیغ کرنا باعثِ شرمندگی ہے؟


بعض لوگ تبلیغ کو باعثِ شرمندگی سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی سے دین کے موضوع پر گفتگو کرنی چاہی اور وہ شخص منہ پھیر کر چل دیا تو ہماری بے عزّتی ہوجائے گی۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی ترویج و ترقی کی خاطر اپنی جان، مال اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی آبرو کی قربانی کا بھی عہد کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر اس راہ میں ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑے تو ہمیں اس کے لئے بھی ہر دم تیار رہنا چاہئے۔ اگر کم علمی کے باعث گفتگو میں شرمندگی کا خوف ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ جتنی بات آپ کرسکتے ہیں وہ ضرور پہنچائیں اور اس کے بعد اپنے زیرِ تبلیغ دوست کاکسی مربی صاحب یا کسی اور عالم سے رابطہ کروادیں۔

کیا تبلیغ کرنے سے ہمارے دوستوں سے تعلقات بگڑ سکتے ہیں؟


اگر کوئی دوست باہمی تعلقات بگڑنے کے اندیشے سے دینی گفتگو سے پرہیز کرے تو اسے سمجھائیں کہ آپ اس وقت جس مذہب پر ہیں اگر اس کے بانی محض اس بناءپر تبلیغ کا کام ترک کردیتے کہ کہیں ان کے لوگوں سے تعلقات بگڑ نہ جائیں تو آج اس دین کا نشان بھی نہ ملتا۔ انہیں بتائیں کہ ہمارا کام محبت اور برادارانہ جذبے کے ساتھ محض پیغام پہنچانا ہے۔ جس کے بعد ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب آپ اسے اختیار کرنے یا رد کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ جس دوست کو آپ تبلیغ کررہے ہوں ان کے عقیدے پر تنقیدنہ کریں بلکہ ان کے اور اپنے مذہب میں مشترک باتیں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

دعا کا نشان


اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کو دعا کا ایک خاص نشان عطا فرمایا ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ اتنے اخلاص و وفا سے پیش آئیں کہ وہ آپ پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ کو اپنی ذاتی پریشانیوں اور تکالیف کے رازدار بنائیں اور پھر آپ نہ صرف خود ان کے لئے دردِ دل سے دعا کریں بلکہ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی ان کے متعلق دعا کے لئے لکھیں اور اُن دوست کو یہ بتائیں کہ آپ ان کے لئے دعا کررہے ہیں ۔ یقینًا اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور فرمائے گا اور جماعت کے حق میں ایک نشان ظاہر فرمائے گا۔


کیا تبلیغ یکطرفہ ٹریفک ہے؟


ایک عام غلط فہمی جو ہمارے اندر پائی جاتی ہے یہ ہے کہ ہم اپنا پیغام تو لوگوں کو سنانا چاہتے ہیں لیکن اُن کی باتیں سننا نہیں چاہتے۔آج کے دور میں جبکہ لوگ مذہب کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے، ایک بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں سے اُن کے مذہب کے متعلق استفسار کیا جائے اور پھر گفتگو کے دوران حکمت کے ساتھ اور احسن رنگ میں اسلامی عقائد کو پیش کیا جائے۔
مکمل تحریر >>

بابیت اور بہائیت ۔ ایک جائزہ

انیسویں صدی عیسوی میں اسلام کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوئے اور تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں میں سے ایک تحریک بابیت اور بہائیت ہے جس نے شریعتِ اسلامیہ کو منسوخ قرار دیا اور ایک نئی شریعت بنا کر پیش کی گئی۔
اس تحریک نے پوشیدہ رہ کر اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس تحریک کا آغاز کیسے ہوا۔ اسلام کے خلاف اس نے کیسی کیسی خوفناک سازشیں کیں اور پھر اس کی قیادت کس طرح انتشار کا شکار ہو گئی اس کا مختصر جائزہ درج ذیل سطور میں پیش کیا جاتا ہے۔

علی محمد باب

بابی مذہب کے بانی علی محمد ایک تاجر شیعہ گھرانے میں یکم محرم ۱۲۳۶ھ / ۹۔اکتوبر ۱۸۲۰ء کو شیراز (ایران ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شیخ عابد سے حاصل کی جو فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ زین الدین احسائی (۱۱۵۴ھ تا ۱۲۴۲ھ) کے شاگرد سید کاظم رشتی (وفات ۱۸۴۳ء) کے مرید تھے۔ ایک دفعہ سفر کربلا کے دوران علی محمد کی ملاقات سید کاظم رشتی سے ہوئی اور ان سے تعلیم پانے لگے۔ یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔

باب ہونے کا دعویٰ

سید کاظم رشتی کا خیال تھا کہ امام غائب کے ظہور کا وقت قریب آ چکا ہے اس لئے انہوں نے اپنی وفات سے قبل امام غائب کی تلاش میں اپنے مریدوں کو ایران میں پھیلا دیا۔ سید کاظم رشتی کی وفات کے پانچ ماہ بعد ان کے ایک مرید ملا حسین بشروئی شیراز میں علی محمد سے ملے ان کی تحریک پر علی محمد نے ۲۳ مئی ۱۸۴۴ء کو باب ہونے کا دعویٰ کیا۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۳۴‘ ۳۵ نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی ناشر بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
ملا حسین بشروئی کے متعلق خود بہاء اللہ نے لکھا ہے۔
’’اگر وہ نہ ہوتا تو خدائے بزرگ و برتر مقام رحمت پر جلوہ فرمانہ ہوتا اور اپنے تختِ عزت و جلال پر نزول نہ فرماتا‘‘۔(قرنِ بدیع صفحہ ۳۸ شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
شیعہ عقائد کی رو سے باب امام مہدی اور لوگوں کے درمیان واسطے کو کہتے ہیں ابتداءً علی محمد نے باب ہونے کے دعویٰ پر ہی اکتفا کیا لیکن کچھ عرصہ بعد صاحب شریعت اور تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ چنانچہ بہاء اللہ نے لکھا:۔
’’۔۔۔ ایسا نقطہ ہیں جس کے گرد تمام انبیاء اور رسولوں کی حقیقت گھومتی ہے اور آپ کا مرتبہ تمام انبیاء سلف سے بڑھ چڑھ کر ہے اور آپ کا ظہور تمام برگزیدہ انبیاء کے خیال اور تصور سے بالاتر ہے۔‘‘ (قرنِ بدیع صفحہ ۹۴ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)

بابیت کی تبلیغ

علی محمد نے اپنے ابتدائی اٹھارہ مریدوں کو حروف حیٔ کا نام دیا جنہوں نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی اور حکومتی معاملات میں بھی دخل اندازی کرنے لگے ان کے مرید مسجدوں میں جا کر اذان دیتے جس میں علی محمد باب کا ذکر تھا اور زبردستی ممبروں پر چڑھ کر تبلیغ کرتے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۶۹‘ ۱۶۳ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)

علی محمد کی گرفتاری اور دعویٰ سے دستبرداری

متشدّدانہ تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے علی محمد باب کے مریدوں کا عوام الناس سے تصادم ہونے لگا جس کی وجہ سے حکومت نے امن عامہ کی خاطر علی محمد باب کو حراست میں لے لیا اور ملاقات پر پابندی عائد کر دی لیکن علی محمد باب نے اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا تو علی محمد باب دعویٰ سے دستبردار ہو گئے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۷۱ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)
اس پر حکومت نے انہیں رہا کر دیا لیکن کچھ عرصہ گذرنے کے بعد علی محمد باب اور اس کے مریدوں نے اپنی کارروائیاں پھر تیز کر دیں جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

اسلامی شریعت کی منسوخی کا اعلان

اس دوران علی محمد باب کے سرگرم مرید مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ کی سرکردگی میں ۱۸۴۸ء میں بدشت کے مقام پر بابی سربراہوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں علی محمد باب کی ایک مرید عورت ام سلمیٰ قرۃ العین طاہرہ نے پہلی دفعہ اسلام کی منسوخی کا اعلان کیا اور علی محمد باب کی رہائی کیلئے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کانفرنس میں مرزا حسین علی نوری نے اپنے لئے بہاء کا لقب استعمال کیا۔ (قرن بدیع صفحہ ۶۵‘۶۶ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسسۃ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
بدشت کانفرنس کے بعد بابیوں نے پرتشدّد کارروائیاں شروع کر دیں جس کے نتیجے میں ایران میں زبردست فسادات برپا ہوئے۔ اور بابی قلعہ بند ہو کر حکومت کے خلاف کئی ماہ تک لڑتے رہے ان معرکوں میں سرکردہ بابی مرزا حسین علی نوری ملا حسین بشروئی اور قرۃ العین پیش پیش تھے۔ انہوں نے اپنے جانثاروں کو حکومت کا لالچ دیا لیکن اس کے باوجود ان معرکوں میں بابیوں کو بری طرح ناکامی ہوئی۔

بابی شریعت البیان

ادھر قلعہ ماہ کو میں قید علی محمد باب نے شریعت کی کتاب ’’البیان‘‘ لکھنی شروع کی جسے قرآن مجید کا ناسخ قرار دیا (بابی تصور کے مطابق وحی آسمان سے نازل نہیں ہوتی بلکہ دل سے اٹھتی ہے) مگر اسے بھی مکمل نہ کر سکا۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۱۱ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
البیان میں بابیوں کو جارحانہ اور پرتشدّد طریق اپنانے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ عبدالبہاء نے لکھاہے۔
’’حضرت اعلیٰ (علی محمد باب) کا حکم البیان میں یہی ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے اور آپ کی تصدیق نہیں کرتے ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اور ان کا قتل عام کیا جائے اور علوم و فنون اور مذاہب عالم کی جتنی کتابیں ہیں ان کو جلا دیا جائے اور جتنے مقامات اور قبورانبیاء ہیں ان میں سے بھی کسی کو نہ چھوڑا جائے سب کو گرا دیا جائے‘‘۔ (مکاتیب عبدالبہاء جلد۲ صفحہ ۲۶۶ مطبع کردستان العلمیہ مصر ۱۹۱۰ء)
اسی طرح البیان کے بارہ میں بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۵۲ عربی میں لکھا ہے۔ ان البیان قد اوحی الیہ ممن یظھرہ اللّٰہ یعنی من یظہرہ اللّٰہ (بہاء اللہ) ہی آپ کے الہام کا واحد منبع اور آپ کی محبت کا یگانہ مرکز ہیں۔

علی محمد باب کی وفات

بابیوں کی سرگرمیاں جب حکومت اور عوام کی نظر میں بہت زیادہ مخدوش اور پرُتشدّد ہو گئیں تو حکومت نے علی محمد باب کو تبریز سے لا کر جولائی ۱۸۵۰ء میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ علی محمد باب نے اپنی موت سے ایک روز قبل مایوس ہو کر اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ خود ہی اسے قتل کر دیں اور انہیں یہ وصیت کی کہ جب تم سے میرے بارہ میں استفسار کیا جائے تو تقیہ سے کام لینا اور میرا انکار کر دینا اور مجھ پر لعنت بھیجنا۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۷ مرزاجانی کاشانی لندن ۱۹۱۰ء)

علی محمد باب کی جانشینی

باب نے اپنی وفات سے قبل بہاء اللہ کے چھوٹے سوتیلے بھائی مرزا یحییٰ صبح از ل کو اپنا جانشین مقرر کیا اور تمام ضروری کاغذات اور مہریں وغیرہ اس کے سپرد کر دیں۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۴ ایضاً)
علی محمد باب چونکہ اپنی خود ساختہ شریعت ’’البیان‘‘ نامکمل چھوڑ گئے تھے اس لئے صبح ازل نے ’’المستیقظ‘‘ نامی کتاب لکھی جسے ’’البیان‘‘ کا تتمہ قرار دیا۔ لیکن بہائیوں کا کہنا ہے کہ ’’المستیقظ‘‘ میں ’’البیان‘‘ کے حکموں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔بعد میں بہاء اللہ نے یحییٰ صبح ازل کو ’’دجال‘‘ قرار دیا۔

بابیوں کی حکومت مخالف کارروائیاں

۱۶۔ اگست ۱۸۵۲ء کو چند بابیوں نے شاہِ ایران پر گولی چلا دی لیکن نشانہ خطاء گیا اور حملہ آور گرفتار کر لئے گئے۔ (بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۳۱ از جے۔ای ایسلمنٹ بار ششم ۱۹۸۳ء بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
شاہِ ایران پر قاتلانہ حملہ کے بعد حکومت نے بابیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا جس پر اکثر بابی بھیس بدل کر دوسرے ملکوں میں بھاگ گئے اور بابی تحریک کے سربراہ صبح ازل بھی بغداد چلے گئے۔ چالیس بابی گرفتار ہوئے جن میں مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ بھی تھے۔
چارماہ بعد روسی سفیر کی سفارش پر بہاء اللہ رہا ہوئے۔ (لوح ابن ذئب صفحہ ۴۲ از بہاء اللہ ناشر محفل روحانی ملّی بہائیاں کراچی)
روسی حکومت کی بہاء اللہ میں دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی سے زیادہ یہ سیاسی تحریک تھی۔
کچھ عرصہ بعد حکومت نے مرزا حسین علی نوری کو بھی بغداد بھجوا دیا لیکن انہوں نے وہاں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اس پر حکومت نے انہیں قسطنطنیہ (ترکی) اور پھر ایڈریا نوپل بھیج دیا۔

بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات

جب بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات شروع ہوئے توبہاء اللہ نے دعویٰ کیا کہ باب نے ’’البیان‘‘ میں پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد من یظھرہ اللّٰہ (جسے خدا ظاہر کرے گا )آئے گا اور وہ میں ہوں اور مرزا یحییٰ صبح ازل باب کے حقیقی جانشین نہیں بلکہ اسے صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے مقرر کیا گیا تھا تا ان کی توجہ بہاء اللہ سے ہٹ جائے اور وہ محفوظ رہے۔(مقالہ سیاح صفحہ ۵۵ عباس آفندی مترجم مصطفی رومی مطبوعہ دہلی)
سوال یہ ہے کہ یہ دھوکا باب نے دیا یا انکے جانشین یحییٰ صبح ازل نے یا بہاء اللہ نے؟
اس اختلاف کے بعد بابی مذہب دو فرقوں میں تبدیل ہو گیا بہاء اللہ کے پیروکار بہائی کہلائے اور صبح ازل کے ماننے والے ازلی کہلائے بہاء اللہ اور صبح ازل نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی ایک دوسرے کے خلاف حکومت کے پاس شکایات کیں۔ دونوں فرقوں میں تصادم کے نتیجہ میں بعض افراد قتل بھی ہوئے جس کا الزام دونوں ایک دوسرے پر لگاتے رہے۔ (Materials for the study of the Babi Religion E.E Brawn 1918)
بابیوں کے شدید اختلافات اور فتنہ فساد کی بناء پر ترکی حکومت نے بہاء اللہ اور اس کے ساتھیوں کو عکا فلسطین بھجوا دیا اور صبح ازل کو جزیرہ قبرص روانہ کر دیا۔ بہائی صبح ازل کو دجال اور قبرص کو جزیرہ شیطان قرار دیتے ہیں۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۶۰۱۔ ۶۰۲ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)

بہائی شریعت الاقدس

۱۸۷۳ء میں بہاء اللہ نے عکہ میں البیان کو منسوخ کر کے الاقدس لکھنی شروع کی ہر چند کہ یہ شریعت بھی بہائی تصور کے مطابق ان کی اپنی نازل کردہ اور خود ساختہ ہے۔ جس کے بارہ میں ان کا کہنا ہے کہ الاقدس کا ایک لفظ پڑھنا سب الہامی شریعتوں کے پڑھنے سے بہتر ہے۔ لیکن بہاء اللہ نے اسے اپنی زندگی میں شائع کیا نہ اس کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے اس کی اشاعت کی اجازت دی اور آج سو سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھی بہت ہی محدود تعداد میں اسے شائع کیا گیا ہے۔

بہاء اللہ کا دعویٰ الوہیت

بہاء اللہ نے اپنی نسبت لکھا ہے:۔
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا الْمَسْجُوْنُ الْفَرِیْدُ‘‘ (کتاب مبین از بہاء اللہ صفحہ ۲۸۶)
مجھ اکیلے قیدی کے سوا کوئی معبود نہیں۔
الاقدس اور دوسری الواح میں بہاء اللہ نے اپنے آپ کو مالک قدر‘ سمیع‘بصیر‘ عالم الغیب‘ موجد عالم اور خالق اشیاء قرار دیا ہے۔
بہاء اللہ کے دعویٰ کے بارہ میں محفوظ الحق علمی لکھتے ہیں:۔
’’اہل بہاء نے کبھی نہیں کہا کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور (بہاء اللہ) موعود کل ادیان نبی یا رسول ہے بلکہ اس کا ظہور مستقل خدائی ظہور ہے۔‘ ‘ (کوکب ہنددہلی ۲۴ جون ۱۹۲۸ء)
بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین مرزا عباس آفندی نے لکھا ہے۔
’’پہلے دن انبیاء کے دن کہلاتے تھے لیکن یہ دن یوم اللہ ہے۔‘‘ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۹۷ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
بہائی بہاء اللہ سے دعائیں کرتے ہیں۔ (دروس الدیانۃ درس نمبر۹ ۱۔از محمد علی قائنی مصر ۳۴۱ ۱ ھ صفحہ ۲۸)
اسی طرح بہائی بہاء اللہ کی قبر کو سجدہ بھی کرتے ہیں۔ (بہجۃ الصدور ۔از مرزا علی حیدر صفحہ۲۵۸)
اوران کا قبلہ بہاء اللہ کا مزارہے ۔

بہاء اللہ کی وفات اور بہائیوں میں اختلاف

بہاء اللہ نے ۱۸۹۲ء میں عکہ میں وفات پائی اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے عباس آفندی المعروف عبدالبہاء کو بہاء اللہ کے جانشین ہونے کی وصیت کی اور یہ لکھا کہ عباس آفندی کے بعد دوسرابیٹا مرزا محمد علی جانشین ہو گا اور اس کے بعد ہر پلوٹھابیٹا یا جس کے بارہ میں ولی امر اللہ یعنی موجود بہائی لیڈر وصیت کر جائے وہ جانشین ہو گا۔ لیکن بہاء اللہ کی وفات کے بعد جانشین کے بارہ میں اس کے دونوں بیٹوں میں اختلاف ہو گیا اور بہائیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور بہاء اللہ کی یہ خواہش اور وصیت بھی پوری نہ ہو سکی۔ اور امن کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بہائیت کے اختلافات نفرت اور دشمنی کی شکل اختیار کر گئے۔ دونوں کے مرید آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر بہاء اللہ کی تحریرات میں تحریف کا الزام لگانے لگے۔ (Materials for the study of the Babi Religion Page. 156)

الاقدس کی تعلیمات سے انحراف

بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے یورپ کے دورے کئے اور بہاء اللہ کی تعلیمات کو یورپین معاشرے کے مطابق ڈھالنا شروع کیا مثلاً بہاء اللہ نے اقدس میں لکھا ہے کہ ’’دو شادیوں کی اجازت ہے‘‘۔ (کتاب اقدس صفحہ ۴۴ نمبر ۶۳)
چنانچہ خود بہاء اللہ نے دو شادیاں کیں-
لیکن عبدالبہاء نے صرف ایک شادی کی اجازت دی۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۰۸)
اس طرح بہاء اللہ نے نماز با جماعت کے حکم کو منسوخ کیا ہے۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۸ نمبر ۱۲)
لیکن عبدالبہاء مسلمانوں کی مساجد میں جا کر ان کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا۔
(Baha'u'llah and the new era by J.E. Esslemont P.82 Bahai Publishing Trust Wilmette,illinois)
عبدالبہاء نے ۱۹۲۱ء میں وفات پائی اس کی نرینہ اولاد نہ تھی اس لئے اس نے اپنے نواسے شوقی آفندی کو جانشین مقرر کیا حالانکہ بہاء اللہ کی وصیت کے مطابق عبدالبہاء کے چھوٹے بھائی محمد علی جانشینی کے حقدار تھے۔
شوقی آفندی کا رجحان مذہب کی طرف نہیں تھا مثلاً انہوں نے دیگر بہائی لیڈروں کے برخلاف اصرار کے باوجود داڑھی نہیں رکھی۔ لوگوں سے میل ملاقات کی بجائے وہ تحریر کے کام میں مصروف رہا۔ شوقی آفندی پر ۱۹۵۷ء میں اچانک دل کا حملہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی اسے وصیت لکھنے کا موقعہ ملا۔ اس کی وفات کے بعد بہائیت پھر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک حصہ شوقی آفندی کی بیوی روحیہ خانم کے ساتھ مل گیا اور دوسرا میسن ریمی کے ساتھ۔ آخر ۱۹۶۳ء میں بیت العدل کا قیام عمل میں آیا جس کے ۹ ممبر ہوتے ہیں اور اب یہی بہائیت کی سربراہی کرتے ہیں۔ بہائیوں کے نزدیک بیت العدل کے رکن اپنی ذات میں معصوم نہیں ہوتے لیکن بیت العدل اور اس کے فیصلوں کو معصوم سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح بہائیت کا ایک بنیادی اصول مرد عورت میں مساوات ہے لیکن بیت العدل کے نوارکان میں ایک بھی رکن عورت نہیں۔
مندرجہ بالا مختصر جائزہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بابیت اور بہائیت کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک کلچر یا سیاسی تحریک کا نام ہے ایک عیسائی عیسائیت یاہندو ہندومت پر قائم رہتے ہوئے بھی بہائی ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ان کی عبادت گاہ بہائی ٹمپل ہے تو یورپ میں بہائی چرچ۔ بہائیت دراصل اسلام کے مٹانے کا مذموم مقصد لے کر آئی جس نے آسمانی شریعت قرآن کریم کو منسوخ قرار دیا۔اور مذہب سے آزادی دے کر اباحت کا دروازہ کھولا ہے۔ تا کہ بے دین اور مذہب سے بیزار لوگوں کو اس تحریک میں شامل کیا جا سکے۔ چونکہ اپنے عقائد اور عزائم کو مخفی رکھنا اس تحریک کے بنیادی بارہ اصولوں میں شامل ہے اس لئے بعض اوقات کم علم مسلمان بہائیت کے فریب میں آ جاتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس اس تحریک کے عزائم سے مطلع ہوں تا یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
مکمل تحریر >>