ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صا حب نے ایک مؤرخ کی حیثیت سے 1974ء سے قبل کے حالات اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارگزاری کا جائزہ لیا ہے۔ بحیثیت مؤرخ واقعات کی جستجو اور پڑتال کی غرض سے اس دور کی بعض سرکردہ شخصیات سے ملاقات کرکے ان کے انٹرویو بھی لئے۔
قومی اسمبلی کی کارروائی خفیہ قرار دی گئی تھی۔ اب قریباً چار دہائیوں کے بعد قومی اسمبلی کی سپیکر محترمہ فہمیدہ مرزا صا حبہ کی زیر ہدایت اس سے پردہ اخفا اٹھالیا گیا ہے اور پابندی ختم کردی گئی ہے اور کارروائی سرکاری طور پر شائع بھی کردی گئی ہے مگر یہ کارروائی بالعموم دستیاب نہیں۔
پاکستان کی نئی نسل اور علمی حلقوں میں اس کارروائی کے بارہ میں گہری دلچسپی پائی جاتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر محققین بھی یہ جاننے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں کہ خصوصی کمیٹی کی کارروائی میں اسمبلی کے سامنے معاملہ کس رنگ میں زیر بحث لایا گیا ، اسمبلی کے آئینی اختیارات کیا تھے، جماعت احمدیہ کا مؤقف کیا تھا، امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پر جو جرح کی گئی اس کا اثر اور ماحصل کیا تھا، قومی اسمبلی اس معاملے سے کس انداز سے نبرد آزما ہوئی اور کہاں تک اس نازک ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکی۔
دریں اثنا مذکورہ واقعات کے بارہ میں ایک مؤرخ کا بیان قارئین کی خدمت میں ”خصوصی کمیٹی میں کیاگزری … تاریخ کا ایک باب“ کے عنوان سے پیش ہے۔ اس میں 7/ ستمبر 1974ء کی منظور کردہ آئینی ترمیم اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارگزاری اور پس منظر اور پیش منظر بیان کئے گئے ہیں جو قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔