قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو ان کی صداقت کے نشان کے طور پر فرماتاہے۔ عالم الغیب خدا انہیں نہ صرف قبل از وقت غیب کی خبریں دیتابلکہ ان پرغلبہ بخشتاہے اور مستقبل میں ظاہر ہونے والی باتوں سے متعلق غیر معمولی علم عطا فرماتا ہے۔ (الجن:۲۷) جس کا ذریعہ وحی و الہام اور رؤیا و کشوف ہیں (الشوریٰ :۵۲) ۔ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ’’بشیر اور نذیر‘‘ کے القابات سے نوازا گیا۔ آپ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ اصولی بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیاو کشوف کے ذریعہ عطا فرمائی گئیں۔ اور امت مرحومہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کے نظارے اس جزئی تفصیل کے ساتھ آپ کو کروائے گئے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً ایک نظارہ نماز کسوف کے دوران آپ کو کروایاگیا جس کے بارے میں (اس نماز کے بعد) صحابہ کے اس استفسار پر کہ آپ حالت نماز میں آگے بھی بڑھے اور پیچھے بھی ہٹے تو اس کاکیا سبب تھا؟ آپ ؐنے اپنے اس کشف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایامجھے ابھی اس مقام پر آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ جنت و دوزخ (کی کیفیات) بھی (دکھائی گئیں) ۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کرکے پیچھے ہٹے۔(بخاری کتاب الکسوف)
نبی کریم ﷺ کے ا ن رؤیا و کشوف کی تفاصیل کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے ان کی مختلف انواع اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے جن میں سے بعض کا ذکر اس جگہ مناسب ہوگا۔
۱
وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی ظاہری رنگ میں پوری ہو گئیں مثلاً آنحضرت ﷺ کو حضرت عائشہؓ کے ساتھ شادی سے قبل آپؐ کو ان کی تصویر دکھاکر بتایا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے ۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آپ نے کما ل احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرما دے گا۔ (بخاری کتاب النکاح) اور پھر بظاہر ناموافق حالات کے باوجود ایسا ہی ہوا۔
۲
وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو آنحضرت ﷺکی زندگی میں پوری ہو گئیں مگر ظاہراً نہیں بلکہ ایسی تعبیر کی شکل میں جو اس وقت واضح نہیں تھی۔ ایسے کشوف کثرت سے پائے جاتے ہیں جیسے غزوۂ احد سے قبل حضور کا حالت کشف میں چند گائیوں کا ذبح کرنا او ر اپنی تلوار کو لہرانا اور اس کااگلا حصہ ٹوٹ جانا۔ (بخاری کتاب التعبیر)
ُاحد میں ستّر مسلمانوں کی شہادت کی قربانی اور خود رسول اللہ ﷺ کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہوئی تو پتہ چلا کہ اس رؤیا کی یہ تعبیر تھی۔
۳
وہ رؤیا و کشوف جن کی تعبیر رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ظاہر تو ہو گئی مگراس تعبیر سے مختلف رنگ میں ظاہر ہوئی جو نبی کریم ﷺ نے اولاً اس سے مراد لی تھی گویا کشف کے وقت اس کی تعبیر کی تفہیم کئی حکمتوں کے پیش نظر بیان نہیں فرمائی گئی۔ تعبیر ظاہر ہونے پر کھلا کہ مفہوم کیاتھا ۔ جیسے نبی کریم ؐ کو ایک کھجوروں والی جگہ دارالہجرت کے طور پر دکھائی گئی۔ اوّل آپ نے یمامہ کی سرزمین مراد لی مگر بعدمیں کھلا کہ اس سے مراد یثرب یعنی مدینۃ الرسول تھا۔(بخاری کتاب التعبیر)
۴
رسول کریم ﷺکے وہ کشوف جو بظاہر نظر آپ ؐ کی ذات والا صفات کے بارہ میں معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی تعبیر کی تفہیم کے مطابق آپ نے اپنی وفات کے بعد ان کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی۔ اور پھر ایسا ہی ظہور میں آیا۔ جیساکہ دو کذّاب مدعیان نبوت کے بارہ میں کشف میں نبی کریم ﷺ نے خود بیان فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں اور میں نے ان کو ناپسند کرتے ہوئے کاٹ دیا ہے ۔ پھر مجھے اذن ہوا اور میں نے ان دونوں کو پھونک ماری اوروہ دونوں اُڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو کذابوں سے کی جو (میرے بعد) خروج کریں گے ۔ عبیداللہ کہتے تھے ان سے مراد اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب تھے ۔(بخاری کتاب المغازی و کتاب التعبیر)
اسی طرح حضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ تو وفات پا گئے اور اب تم ان خزانوں کوحاصل کر رہے ہو ۔(بخاری کتاب التعبیر)
۵
وہ رؤیا و کشوف جن کا تعلق آخری زمانہ سے ہے ۔ اس میں انذاری اور تبشیری دونوں قسم کے کشوف شامل ہیں جن کی تعبیرات رسول اللہ ؐ پر ظاہر نہیں کی گئیں ، نہ ہی آپ ؐ نے ان کا ذکر فرمایا البتہ بعد میں اپنے وقت پر بعض تعبیرات کے ظہور پر خود زمانہ نے گواہی دی اور بعض کے ظہور کا ہنوز انتظار ہے مثلاً رؤیا میں رسول کریم ﷺ نے مسیح موعود اور دجاّل کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔(بخاری کتاب التعبیر)
بعض دوسری احادیث صحیحہ کے مطابق چونکہ دجاّل مکّہ میں داخل نہیں ہوگا ا سلئے علماء امت نے اس کشف کی تعبیر یہ کی کہ دجال کے طوافِکعبہ سے مراد اسلام کی تباہی و بربادی کی کوشش ہیں اور مسیح موعود کے طواف سے مراد خانہ کعبہ اور دین حق کی حفاظت کی سعی ہے۔(مظاہر الحق شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۴ صفحہ ۳۵۹ عالمگیر پریس لاہور)
اسی طرح نبی کریم ﷺ کو آپ کی امت کی کثرت اور شان و شوکت کے نظارے بھی کرائے گئے ۔ آپؐنے فرمایا کہ اس کثرت کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا جس نے میدان بھرے ہوئے تھے ۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۳،۴ دارالفکر بیروت)
امت کے بعض ایسے ہی خوش نصیب گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا میری امت جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو مسیح موعود کے ساتھ ہوگی۔(نسائی کتاب الجہاد)
اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعہ سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغاز ہوا اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کو وہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلاکر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اوراپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کرلیا اوریوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا۔
پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ اورآپؑ کی جماعت سے ہے جسے مسیح موعود ؑ کی روحانی قیادت میں دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں کی توفیق عطا ہونا تھی اور جن کے بارہ میں رسول خدا نے شوق ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ میرے بھائی ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۰۰ دارالفکر بیروت) جنہوں نے مجھے دیکھا ہے مگر میری محبت کی خاطرقربانیاں کریں گے(مسند دارمی کتاب الرقاق) ۔ انہی غلامانِ مسیح موعودؑ کے ذریعہ دین اسلام کا وہ غلبہ مقدر ہے جس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس مسیح موعود کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمام مذاہب اور ملتوں کوہلاک کر دے گا سوائے اسلام کے۔ (ابوداؤد کتاب الملاحم)
اسلام کی عالمگیر فتوحات کا یہی وہ زمانہ معلوم ہوتا ہے جس میں نبی کریم ﷺ کے اس کشف کی تعبیر بھی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو گی جس میں آپ ؐ نے بیان فرمایا کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کے مشرق اورمغرب کے کنارے سمیٹ کر دکھائے ‘‘۔ اور پھر اس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میری امت کی حکومت بالآخر ضرور اَور سرزمینوں پر قائم ہوگی جو مجھے عالم رؤیا میں دکھائی گئی ہیں۔(مسلم کتاب الفتن)۔
آئندہ زمانہ میں ان رؤیا و کشوف کی تعبیرات کے ظہور پر ہمار ا ایمان اور یقین اس وقت اور پختہ ہو جاتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے آقا و مولا مخبر صادق حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس سے بھی کمزور زمانہ میں اپنے رؤیا و کشوف کی بناء پر جواحوال بیان فرمائے وہ پوری آب و تاب کے ساتھ پورے ہو چکے ہیں ۔ اس جگہ دو کشوف کا تفصیلی تذکرہ بطور نمونہ کیاجاتاہے ۔ ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم ﷺ کو غزوہ احزاب کے اس ہولناک ابتلامیں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفارِ مکہ کے امکانی حملے سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے اور دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جب کہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصروف تھے اور مسلسل تین دن سے فاقہ سے تھے۔دریں اثنا کھدائی میں ایک سخت چٹان آ گئی جو ٹوٹتی نہ تھی ۔ رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا اس پر پانی پھینکو پھر آپ نے اللہ کانام لے کر کدال کی ضرب لگائی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گئی ۔ اچانک نظر پڑی تو کیا دیکھتاہوں کہ (فاقہ کی شدت سے ) حضور ﷺ نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے۔ (بخاری کتاب المغازی)
حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی اور آپ ؐنے اللہ کانام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہو گیا اور اس کا ایک بڑاحصہ ٹوٹ گراآپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ شام کی کنجیاں میر ے حوالے کی گئی ہیں اور خداکی قسم! میں شام کے سرخ محلات اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔ پھرآپ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی ، پتھرکا ایک اور حصہ شکستہ ہو کرٹوٹا اور رسول کریم ﷺ نے اللہ اکبرکا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں مدائن اوراس کے سفید محلات اس جگہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہاہوں ۔پھر آپ نے اللہ کا نام لے کر تیسری ضر ب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ آپ نے تیسری مرتبہ اللہ اکبر کانعرہ بلند کر کے فرمایا ’’مجھے یمن کی چابیاں سپر د کی گئی ہیں اورخدا کی قسم میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اپنی اس جگہ سے کر رہا ہوں۔(مسنداحمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۰۳ دارالفکر بیروت)
یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں لیکن الٰہی وعدوں پر ایسا پختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن ہو کر رہیں گی اور پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت سے ان فتوحات کا آغازہو جاتاہے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کوفتح کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے زمانہ ٔخلافت میں ا ن فتوحات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کی فتوحات حاصل کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کی دو بڑی سلطنتیں روم و ایران ان فاقہ کشوں مگر الٰہی وعدوں پر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔
دوسرے عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے ۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب برّی سفر وں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسرنہیں تھے نبی کریم ﷺ کو مسلمانوں کی بحری جنگوں کی خبردیتے ہوئے نظارہ کروایاگیا۔ حضرت امّ حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضور ہمارے گھر محوِ استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ میں نے سبب پوچھا توفرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اُمّ حرامؓکہتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آ پ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنا دے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کر دے۔ پھر آپ ؐ کو اونگھ آ گئی اور آنکھ کھلی تو مسکرا رہے تھے ۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے پہلے کی طرح اُمّت کے ایک گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہا د کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے ۔ حضرت اُمّ حرامؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ ا س گروہ میں بھی شامل ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا آپ گرو ہ ’’اولین ‘‘میں شامل ہو اور گروہ’’ آخرین‘‘ میں شریک نہیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھر ام حرامؓ فاختہ بنت قرظہ زوجہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ سمندری سفر میں شامل ہوئیں ۔ اوراسی سفر میں واپسی پر سواری سے گر کر وفا ت پائی۔(بخاری کتاب الجہاد)
اس حدیث میں جزیرہ قبرص کی طرف اشارہ ہے جو حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں فتح ہوا، جب وہ شام کے گورنر تھے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ حالانکہ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی اور پھر حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیا جواسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہادتھا۔ جس کے نتیجے میں قبرص فتح ہوا۔ اور بعد میں ہونیوالی بحری فتوحات کی بنیاد یں رکھی گئیں۔ اور بنی کریم ﷺ کے مبارک منہ کی و ہ بات پوری ہوئی جو آپ نے فرمایا تھا کہ دین اسلام غالب آئے گایہاں تک کہ سمندر پار کی دنیاؤں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا ۔ اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کوبھی چیر جائیں گے۔(کنزالعمال جلد۱۰ صفحہ ۲۱۲ مطبعۃ الاصیل حلب)
یہ پیشگوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اوررومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کالوہامنوایا اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیڑے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔ چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہما ت میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ احمر کے اس پارپہنچے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ رُودس ، صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ تیسری طرف طارق بن زیادہ فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرالٹر پر پہنچ کرہرچہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلا دئے ۔ تو چوتھی طرف محمد بن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدہ عالم پربحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی ، کیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہازرانی انمٹ نقوش ثبت کئے جورہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیر ہوئیں ، جہاز سازی کے کارخانے بنے ، بحری راستوں کی نشاندہی اورسمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے۔ اورمسلمان سمندروں پربھی حکومت کرنے لگے اور رسول خدا ﷺکے رؤیا وکشوف کما ل شان کے ساتھ پورے ہوئے ۔
اوریہ بات آج بھی ہمارے لئے ازدیاد ایمان ویقین کا موجب ہے کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ ہم سے کئے گئے۔ سچ ہے
جس بات کو کہوں کہ کرو ں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ با ت خدائی یہی تو ہے(مطبوعہ : الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری ۱۹۹۹ء تا ۷ جنوری ۱۹۹۹ء)