مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی اگر صرف پاکستان کے لئے خدمات ہی کا جائزہ لے لیا جائے تو یہ اعتراض ختم ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ وہ پاکستان کے غدار تھے وغیرہ وغیرہ۔
اس ضمن میں مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف کی چند خدمات کا تذکرہ ، ان پر لگے بے بنیاد اعتراض کا جواب دینے میں ممد ہونگی۔
اس ضمن میں مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف کی چند خدمات کا تذکرہ ، ان پر لگے بے بنیاد اعتراض کا جواب دینے میں ممد ہونگی۔
1۔ سائنسی مشیر اعلیٰ برائے صدر پاکستان ۔
اس حیثیت میں سلام صاحب نے بہت سے اقدام کئے جن سے پاکستان نے سائنس میں ترقی کی۔
۔ انہوں نے میزائل ریسرچ اور اس سے ملحقہ میدانوں میں ترقی کے لئے خلاء اور بالائی فضا کی تحقیقی کمیٹی’’ SUPARCO‘‘
۔ انہوں نے میزائل ریسرچ اور اس سے ملحقہ میدانوں میں ترقی کے لئے خلاء اور بالائی فضا کی تحقیقی کمیٹی’’ SUPARCO‘‘
(Space and Upper Atmosphere Research Commission ) کی بنیاد رکھی اور کچھ عرصہ اس کے چئیر مین بھی رہے
۔ سلام صاحب نے صدر ایوب خان کوآمادہ کیا کہ وہ’’PINSTECH‘‘
۔ سلام صاحب نے صدر ایوب خان کوآمادہ کیا کہ وہ’’PINSTECH‘‘
(Pakistan Institute of Nuclear Science and Technology)‘‘ کی منظوری اور ہدایت دے دیں۔ جو ایک تخلیقی سائنسی یادگار ہو اور جس کی بدولت پاکستان میں سائنسی تعلیمات کا احیاء ہو ۔ چنانچہ جلد ہی اسلام آباد میں نیلور کے مقام پر اس کا قیام عمل میں آگیا۔اور یہ ادارہ اب بھی قائم ہے۔
۔ 1972ء میں جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی اس میں سلام صاحب کا بطورمشیر سائنس صدر پاکستان کے اہم کردار تھا۔
۔ سلام صاحب نے 1974ء میں لاہور میں منعقدہ پہلی اسلامی کانفرنس کے موقع پر ’’اسلامک سائنس فاؤنڈیشن‘‘کے قیام کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس فاؤنڈیشن کا قیام اعلیٰ سطح پر ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کو اپنا ہدف بناتے ہوئے اسلامی ملکوں کی مدد سے عمل میں لایا جائے۔ فاؤنڈیشن کی سرپرستی اسلامی ممالک کریں۔
۔ 1972ء میں جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی اس میں سلام صاحب کا بطورمشیر سائنس صدر پاکستان کے اہم کردار تھا۔
۔ سلام صاحب نے 1974ء میں لاہور میں منعقدہ پہلی اسلامی کانفرنس کے موقع پر ’’اسلامک سائنس فاؤنڈیشن‘‘کے قیام کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس فاؤنڈیشن کا قیام اعلیٰ سطح پر ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کو اپنا ہدف بناتے ہوئے اسلامی ملکوں کی مدد سے عمل میں لایا جائے۔ فاؤنڈیشن کی سرپرستی اسلامی ممالک کریں۔
2۔ سلام صاحب کے قائم کردہ اعلیٰ بین الاقوامی ادارے۔
۔ سلام صاحب نے تیسری دنیا کے قابل سائنسدانوں کے لئے مزید اعلیٰ سائنسی استعدادوں کے حصول کی خاطر 1964ء میں ٹریسٹے (اٹلی)میں ایک بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی سائنس (Internationl Centre for Theoretical Physics)قائم کیا جس نے بے شمار سائنسدانوں کو اعلیٰ علم اور میعار حاصل کرنے کے قابل بنایا ۔ اس سے قبل 1962ء میں سلام صاحب نے صدر ایوب سے درخواست کی کہ حکومت پاکستان اس سنٹر کے قیام کی منظوری دے دے۔ لیکن ایوب خان کے مشیروں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور سلام صاحب کو اسے اٹلی میں قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ یہ مرکز پاکستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ آج ICTPٍمیں پچاس سے زائد ترقی پذیر ممالک کے سائنسدان تحقیقی کام کے لئے باقاعدگی سے حاضر ہوتے ہیں جن میں پاکستانی سائنسدان بھی شامل ہیں۔
۔ ICTPکے بعد ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا ایک اور زبردست کارنامہ سائنس اکیڈمی برائے تیسری دنیا ہے ، جسکا انکی کوششوں سے 1983ء کو قیام عمل میں آیا۔
۔ ICTPکے بعد ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا ایک اور زبردست کارنامہ سائنس اکیڈمی برائے تیسری دنیا ہے ، جسکا انکی کوششوں سے 1983ء کو قیام عمل میں آیا۔
3۔ نوبیل انعام ۔
کائنات کو یکجا رکھنے والی قوتوں کے متعلق ریسرچ کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی رات دن کی محنت آخر پھل لائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 1979ء میں آپ کو عالمی سطح پر سب سے قیمتی اور قابل فخر انعام نوبیل پرائز ملا ۔ آپ پہلے مسلمان اور واحد پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔
(ماخوذ از تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار۔ از پروفیسر محمد نصر اللہ خان صاحب۔صفحہ 282تا315)
مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی سوانح حیات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور تیسری دنیا کے لوگوں کی سائنسی ترقی کے کس قدر خواہشمند تھے اور صرف خواہش ہی نہیں بلکہ اس کے لئے انہوں نے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ یہ ایک قرض ہے جو پاکستانی قوم پر سلام صاحب کا ہے ، اور اس کو اتارنے کے لئے کم سے کم انکی کوششوں کا تو اعتراف کیا جانا چاہیے نہ کہ ان پر بے بنیاد الزامات لگانے چاہئیں۔
اگرچہ وہ ایک سچے مسلمان تھے تاہم اگر کسی کو اس پر یقین نہ بھی آئے تو بھی ان کی سائنس کے میدان میں خدمات ، پاکستان کے لئے خصوصاً اور مسلمانوں اور تیسری دنیا کے لئے عموماً ، ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
اگرچہ وہ ایک سچے مسلمان تھے تاہم اگر کسی کو اس پر یقین نہ بھی آئے تو بھی ان کی سائنس کے میدان میں خدمات ، پاکستان کے لئے خصوصاً اور مسلمانوں اور تیسری دنیا کے لئے عموماً ، ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔