ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام اپنے چند اصحاب کے ہمراہ دہلی میں جلوہ افروز ہوئے ، تو چند غیر احمدی مولوی بھی سوال و جواب کی غرض سے وہاں حاضر ہوئے ، اسی دوران کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات مسیح ؑ پر بات کر رہے تھے ، ایک مولوی صاحب نے نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق سوال کرنا شروع کیے ، اور حضرت صاحب نے جوابات عنایت فرمائے ، وہ دلچسپ گفتگو قارئین کے لیے یہاں نقل کی جاتی ہے ۔
مولوی صاحب:۔تو جن روایات سے حضرت عیسیٰ ؑکی زندگی ثابت ہے ان کو کیا کریں؟
حضرت اقدس علیہ السلام:۔جو روایت قرآن اور حدیثِ صحیح کے مخالف ہو، وہ ردّی ہے۔ قابلِ اعتبار نہیں۔ قولِ خدا کے برخلاف کوئی بات نہیں ماننی چاہیے۔
مولوی صاحب:۔اور جو وہ روایت بھی صحیح ہو۔
حضرت اقدسؑ:۔جب قولِ خدا اور قولِ رسول کے برخلاف ہوگی تو پھر صحیح کس طرح؟خود بخاری میں مُتَوَفِّیْکَ کے معنے مُمِیْتُکَ لکھے ہیں۔
مولوی صاحب:۔ہم بخاری کو نہیں مانتے اور روایتوں میں مسیح کی زندگی لکھی ہے۔ قرآن کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ مسیح زندہ ہے۔
حضرت اقدسؑ:۔ تمہارا اختیار جو چاہو مانو یا نہ مانو اور قرآن شریف خود اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ خد اتعالیٰ نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے اور کتاب اﷲ اور احادیث صحیحہ کے مطابق یہ بات ہے۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ قرآن و حدیث کے مخالف ہم کوئی روایت نہیں مان سکتے۔
مولوی صاحب:۔اور جو وہ بھی صحیح ہوتو؟
حضرت اقدس ؑ:۔وہ صحیح ہو ہی نہیں سکتی۔
مولوی صاحب:۔ اگر چہ صحیح ہو۔
حضرت اقدسؑ:۔میں کئی دفعہ سمجھا چکا ہوں۔اب بار بار کیا کہوں۔ کتاب اللہ کے برخلاف جو روایت ہو وہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہے؟
مولوی صاحب:۔یہ کس نے لکھا ہے۔کس کتاب میں درج ہے کہ برخلاف روایت ہو تو نہ مانو۔امام بخاری نے بھی غلطی کھائی جو مُتَوَفِّیْکَ کے معنے مُمِیْتُکَ کر دیئے۔
حضرت اقدسؑ:۔اگر بخاری نے غلطی کھائی تو تم اور کوئی حدیث یا لغت پیش کرو جہاں وفات کے معنے سوائے موت کے کچھ اور کئے گئے ہوں۔
مولوی صاحب:۔اچھا ۔حضرت عیسیٰ ؑ نے تو فرشتوں کے ساتھ نازل ہونا ہے۔ تمہارے ساتھ فرشتے کہاں ہیں؟
حضرت اقدسؑ:۔تمہارے کندھوں پر جو دو فرشتے ہیں وہ تم کو نظر آتے ہیں جو یہ فرشتے تم کو نظر آجائیں گے؟
مولوی صاحب:۔تو زینہ کہاں ہے جس کا ذکر آیا کہ اس پر سے عیسیٰ اُترے گا۔
حضرت اقدسؑ:۔نزول کے یہ معنی نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ جب ہم مسافر سے پوچھتے ہیں کہ تم کہاں اُترے؟
اس کے بعد وہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 498 تا 499۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
1 comments:
بہت عمدہ جوابات ہیں. جزاک اللہ.
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔