سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سخت کلامی، گالیاں دینے اور توہین انبیاء علیہم السلام کے الزامات کے جوابات
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یہودونصاریٰ کے علماء کی تین خصلتیں بیان فرمائی ہیں:وہ حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود حقائق کو لوگوں سے چھپاتے ہیں، باتوں کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سچ اور جھوٹ کو اس طرح ملا جلا کر پیش کرتے ہیں جس سے سچ مشتبہ ہوجاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانہ کے علماء یہودونصاریٰ کے بعینہہ مشابہ ہوجائیں گے۔ احمدیہ مسلم جماعت اور بانی جماعت احمدیہ سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق جھوٹے الزامات لگاتے ہوئے ہمارے مخالفین غیر احمدی علماء انہی تین خصلتوں کی پوری پوری پیروی کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں میں ایک جھوٹاالزام ہے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر گالیاں نکالنے، سخت کلامی کرنے اور انبیاء علیہم السلام کی توہین کرنے کا الزام۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہے کہ گالی کہتے کسے ہیں۔ کون سا لفظ گالی ہے اور کون سا نہیں۔ اپنی طرف سے اس کی تعریف کرنے کی بجائے میں ایک سنّی عالم کی تقریر کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو ایک کتاب ’’خطباتِ برطانیہ ‘‘ سے لیا گیا ہے۔سیّد محمد مدنی میاں صاحب، جنہیں ’’شیخ الاسلام‘‘ کا لقب دیا گیا ہے اپنی اس تقریر میں فرماتے ہیں:
سنی علماء گالی دیتے ہیں
’’آج یہاں پر میں ایک پیاری بات سناؤں گا۔ آج علماءِ اہلسنت والجماعت کے اوپر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ گالی دیتے ہیں۔ کیا گالی دیتے ہیں؟ کسی کافر کو کافر کہہ دیا تو گالی ہے، کسی مشرک کو مشرک کہہ دیا تو گالی ہے۔ کسی منافق کو منافق کہہ دیا تو گالی ہے کسی رجیم کو رجیم کہہ دیا تو گالی ہے کسی خنّاس کو خنّاس کہہ دیا تو گالی ہے تو میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سب گالی ہے تو یہ سب قرآن میں ہے۔پہلے قرآن کی صفائی کرو جو اخلاق والی کتاب ہے، جو آسمانی کتاب ہے جو صحیفۂ مبارکہ ہے۔ یہ سب الفاظ اسی قرآن میں ہیں اور اگر تم اسی کو قرآن کریم مانتے ہو جس میں یہ سب الفاظ ہیں تو تمہیں ان الفاظ کو گالی کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔ کیا خدا نے گالی دی ہے؟ حدیث شریف میں اگر منافقوں کو کلاب النّار (جہنم کا کتا) کہا تو کیا رسول نے گالی دی ہے اور پھر اس کے بعد کہتے کیا ہیں؟ کافر کو کافر مت کہو۔مزہ تو یہ ہے کہ کافر کو کافر مت کہو کہنے والے خود کافر کہتے ہیں غور کرو کہتے ہیں کافر کو کافر نہ کہو کس کو کافر نہ کہیں؟ کافر کو۔جناب نے تو کہہ دیا کافر کو کافر نہ کہو۔ ان سے کہو کہ پھر مسلمانوں کو مسلمان بھی نہ کہو۔پوچھا گیا کہ کافر کو کافر کیوں نہ کہیں؟ جواب دیا کہ تجھے کیا خبر کہ مرنے سے پہلے ایمان لے آئے تو ان سے کہو کہ مسلمان کو مسلمان بھی نہ کہنا، اس لئے کہ تجھے کیا خبر کہ مرنے سے پہلے کافر ہوجائے۔ یہ کتنا بڑا افتراء ہے شریعت پر۔ کیا رسول کا یہی پیغام تھا کہ کافر کو کافر نہ کہو۔اگر یہی پیغام تھا تو رسول نے خود کیوں کہا قُلْ یٰایُّھَا الْکٰفِرُوْنَ۔ اے کافرو! یہ کس کو کہا تھا۔کافر ہی کو تو کہا تھا۔ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجْسٌ مشرکین نجس ہیں۔یہ کس کو کہا؟ مشرکین ہی کو تو کہا گیا۔ خنّاس کہا کس کو کہا؟ رجیم کہا کس کو کہا؟ شیطان کہا کس کو کہا؟ خبیث و خبیثات کے الفاظ قرآن پاک میں کیوں آئے؟ اور میں نے جو آیت مبارکہ سنائی اس میں تو حرام زادہ تک کہہ دیا اس میں زنیم کا لفظ بھی آگیا۔ معلوم ہوگیا کہ تم ابھی سمجھ ہی نہ سکے کہ گالی کس کو کہتے ہیں۔کافر کو کافر کہنا گالی نہیں ہے۔شرابی کو شرابی کہنا گالی نہیں ہے۔چور کو چور کہنا گالی نہیں ہے۔بدکار کو بدکار کہنا گالی نہیں ہے جو صفت جس کی ہو اس صفت سے اس کو یاد کرنا گالی نہیں ہے کسی مسلمان کو کافر کہو تو گالی ہے۔کسی نیک کو بُرا کہو تو گالی ہے جو مصداق ہو اس مصداق والے کو وہی کہو تو گالی نہیں۔ مجھ سے تم یہ ضرور پوچھ سکتے ہو کہ جس کو مردود کہا ہے وہ واقعی مردود ہے کہ نہیں؟ جس کو خبیث کہا ہے وہ واقعی خبیث ہے کہ نہیں؟ یہ سوال تو معقول ہے مگر یہ کہنا تو غلط ہے کہ میں نے گالی دی ہے۔ جب میں ثابت کردوں گا کہ واقعی وہ ایسا ہی ہے تو یہ چیز گالی نہیں بنتی اور جب تم گالی نہ سمجھ سکے تو قرآنِ کریم کیا سمجھوگے؟ جواب دو کہ قرآنِ کریم میں جو کچھ ولید بن مغیرہ کو کہا گیا ، یہ گالی ہے کہ نہیں۔ اگر اس کو گالی کہو گے تو قرآنِ کریم کو کیا کہوگے۔الغرض یہ گالی نہیں ہے اس لئے کہ جس کو ایسا کہا گیا تھا وہ واقعی ایسا ہی تھا۔ یاد رکھنا اس کو۔ ‘‘ (خطباتِ برطانیہ ۔ شیخ الاسلام سیّد محمد مدنی میاں۔ باہتمام ابوالعطاء حافظ نعمت علی چشتی ۔ مکتبۂ فریدیہ۔ ایم اے جناح روڈ، ساہیوال)
آپ نے ایک سنّی عالم کی زبانی یہ دیکھ لیا کہ گالی خلافِ واقعہ بات کو کہتے ہیں۔ کسی میں کوئی عیب موجود نہ ہو اور اس کے ساتھ وہ عیب منسوب کیا جائے تو اسے گالی کہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ عیب واقعی اس میں موجود ہو یا کوئی بد صفت اس میں پائی جاتی ہو تو اس کا بیان کرنا گالی نہیں کہلاتا۔
اب دیکھئے کہ گالی کی یہی تعریف اور وضاحت جو اس سنّی عالم نے بیان کی ہے، آج سے ایک صدی سے زائد پیشتر خدا کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی وہی بیان کی تھی۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
ہم اور ہمارے نکتہ چین
’’بعضے صاحبوں نے نکتہ چینی کے طور پر اس عاجز کی عیب شماری کی ہے۔اور اگرچہ انسان عیب سے خالی نہیں اور حضرت مسیح کا یہ کہنا سچ ہے کہ میں نیک نہیں ہوں، نیک ایک ہی ہے یعنی خدا۔لیکن چونکہ ایسی نکتہ چینیاں دینی کارروائیوں پر بداثر ڈالتی ہیں اور حق کے طالبوں کو رجوع لانے سے روکتی ہیں اس لئے برعایت اختصار بعض نکتہ چینیوں کا جواب دیا جاتا ہے۔ پہلی نکتہ چینی اس عاجز کی نسبت یہ کی گئی ہے کہ اپنی تالیفات میں مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن سے مشتعل ہوکر مخالفین نے اللہ جلّشانہ اور اس کے رسول کریم کی بے ادبی کی اور پُردشنام تالیفات شائع کردیں۔ قرآن شریف میں صریح حکم وارد ہے کہ مخالفین معبودوں کو سبّ اور شتم سے یاد مت کرو تا وہ بھی بے سمجھی اور کینہ سے خدائے تعالیٰ کی نسبت سبّ و شتم کے ساتھ زبان نہ کھولیں لیکن اس جگہ برخلاف طریق ماموریہ کے سبّ و شتم سے کام لیا گیا۔ اما الجواب پس واضح ہو کہ اس نکتہ چینی میں معترض صاحب نے وہ الفاظ بیان نہیں فرمائے جو اس عاجز نے بزعم ان کے اپنی تالیفات میں استعمال کئے ہیں اور جو درحقیقت سبّ و شتم میں داخل ہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے۔ بڑے دھوکہ کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان دونوں مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ بلکہ ایسی ہر ایک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کو کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام دہی تصور کرلیتے ہیں۔حالانکہ دشنام اور سبّ اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے۔ اور اگر ہر ایک سخت اور آزاردہ تقریر کو محض بوجہ اس کے کہ مرارت اور تلخی اور ایذا رسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کرسکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پر ہے۔ کیونکہ جو کچھ بتوں کی ذلت اور بت پرستوں کی حقارت اور انکے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں، بلکہ بلاشبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہوگی۔ کیا خدائے تعالیٰ کا کفار مکہ کو مخاطب کرکے یہ فرمانا کہ انکم وماتعبدون من دون اللّٰہ حصب جہنم۔ معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی نہیں ہے کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں کفار کو شرالبریہ قرار دینا اور تمام رذیل اور پلید مخلوق سے انہیں بدتر ظاہر کرنا یہ معترض کے خیال کی رو سے دشنام دہی میں داخل نہیں ہوگا؟ کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں واغلظ علیہم نہیں فرمایا۔ کیا مومنوں کی علامات میں اشدّاء علی الکفار نہیں رکھا گیا۔‘‘ (ازالۂ اوہام۔حصہ اوّل، صفحہ ۔8,9 روحانی خزائن جلد۔ 3صفحہ108,109 )
اِس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ مقدّس لوگ پرلے درجہ کے غیر مہذّب تھے کیا زمانہ حال کی موجودہ تہذیب کی ان کو بُو بھی نہیں پہنچی تھی؟ اس سوال کا جواب ہمارے سیّدومولیٰ مادروپدرم براوفداباد حضرت ختم المرسلین سیّدالاوّلین والآخرین پہلے سے دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبریہ ہیں سفہاء ہیں اور ذریّت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقودالنار اور حصب جہنم ہیں تو ابوطالب نے آنحضرت ﷺ کو بُلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔ تُو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہ قراردیا اور ان کے بزرگوں کو شرّالبریہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقودالنار رکھا اور عام طور پر اُن سب کو رجس اور ذریّت شیطان اور پلید ٹھہرایا میں تجھے خیرخواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔آنحضرت ﷺ نے جواب میں کہا کہ اے چچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ ہے اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں۔میری زندگی اس راہ میں وقف ہے۔ میں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رُک نہیں سکتا۔۔۔اب حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے ابوطالب کے اعتراض کا خود اپنی زبان مبارک سے جواب دیا درحقیقت وہی جواب ہر ایک معترض کے ساکت کرنے کے لئے کافی و وافی ہے کیونکہ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شئ ہے۔ہر ایک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گم گشتہ کے کانوں تک پہنچادیوے پھر اگر وہ سچ کو سُنکر برافروختہ ہو تو ہوا کرے۔۔۔آنحضرت ﷺ نے حق کی تائید کے لئے صرف الفاظ سخت ہی استعمال نہیں فرمائے بلکہ بُت پرستوں کے اُن بُتوں کو جو اُن کی نظر میں خدائی کا منصب رکھتے تھے اپنے ہاتھ سے توڑا بھی ہے۔(ازالۂ اوہام۔حصہ اوّل، صفحہ ۔10-13 روحانی خزائن جلد۔ 3صفحہ110-113 )
’’قرآن شریف جس آواز بلند سے سخت زبانی کے طریق کو استعمال کررہا ہے ایک غایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی اُس سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ مثلًا زمانہ حال کے مہذبین کے نزدیک کسی پر لعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے۔لیکن قرآن شریف کفار کو سُنا سُنا کر ان پر لعنت بھیجتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اولئک علیھم لعنۃ اللّٰہ والملٰئکۃ والناس اجمعین خالدین فیھا۔الجزو ۲ سورۃ البقرۃ۔ اولٰئک یلعنھم اللّٰہ و یلعنھم اللّٰعنون۔ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے۔لیکن قرآن شریف نہ صرف حیوان بلکہ کفار اور منکرین کو دنیا کے تمام حیوانات سے بدتر قرار دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہےان شرّالدوّاب عنداللّٰہ الذین کفروا۔ ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی خاص آدمی کا نام لے کر یا اشارہ کے طور پر اس کو نشانہ بنا کر گالی دینا زمانۂ حال کی تہذیب کے برخلاف ہے لیکن خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض کا نام ابولہب اور بعض کا نام کلب اور خنزیر کہا اور ابوجہل تو خود مشہور ہے ایسا ہی ولید بن مغیرہ کی نسبت نہایت درجہ کے سخت الفاظ جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں استعمال کئے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے فلا تطع المکذبین ودوا لو تدہن فیدھنون ولا تطع کل حلاف مھین ھمّازٍ مشاءٍ بنمیم مناع للخیر معتدٍ اثیم عتل بعد ذٰلک زنیم۔۔۔سنمہ علی الخرطوم دیکھو سورۃ القلم الجزو نمبر ۲۹۔ یعنی تو ان مکذبوں کے کہنے پر مت چل جو بدل اسبات کے آرزومند ہیں کہ ہمارے معبودوں کو برا مت کہو اور ہمارے مذہب کی ہجو مت کرو۔ تو پھر ہم بھی تمہارے مذہب کی نسبت ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے انکی چرب زبانی کا خیال مت کر۔یہ شخس جو مداہنہ کا خواستگار ہے جھوٹی قسمیں کھانے والا اور ضعیف الرائے اور ذلیل آدمی ہے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے والا اور سخن چینی سے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے والا اور نیکی کی روہوں سے روکنے والا۔زناکار اور بایں ہمہ نہایت درجہ کا بدخلق اور ان سب عیبوں کے بعد ولدالزنا بھی ہے۔عنقریب ہم اس کے ناک پر جو سور کی طرح بہت لمبا ہوگیا ہے داغ لگادیں گے۔یعنی ناک سے مراد رسوم اور ننگ و ناموس کی پابندی ہے جو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے (اے خدائے قادر مطلق ہماری قوم کے بعض لمبی ناکوں والوں کی ناک پر بھی اُسترہ رکھ)اب کیوں حضرت مولوی صاحب کیا آپ کے نزدیک ان جامع لفظوں سے کوئی گالی باہر رہ گئی ہے۔ اور اس جگہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ نے نرمی اختیار کرکے چاہا کہ ہم سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے۔ اس کے جواب میں اس کے تمام پردے کھولے گئے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنین سے مداہنہ کی امید مت رکھو۔‘‘(ازالۂ اوہام۔حصہ اوّل،حاشیہ۔روحانی خزائن جلد۔ -3صفحہ115-117 )
چنانچہ یہ ثابت ہوگیا کہ حسبِ حال بات کا بیان کرنا گالی نہیں ہوتا اور اگر یہ گالی ہے تو پھر یہ تمام الفاظ تو قرآن شریف اور احادیث میں بھی موجود ہیں بلکہ ایک دو احادیث میں تو نہایت شدید الفاظ بھی موجود ہیں ۔
صحیح بخاری
’’لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی (یعنی ہم آپؐ پر غالب ہوئے) تو میں تو خدا کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ پنج میل لوگ یہی کریں گے، اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپؐ کو تنہا چھوڑدیں گے۔ اس پر ابوبکرؓ بولے امصِص ببَظْر اللَاتِ (ابے جا ! لات بُت کی شرمگاہ چوس لے) کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپؐ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔‘‘ (کتاب الشروط باب الشُروطِ فی الجہاد والمُصالَحَۃِ مَعَ أَھْلِ الْحُرْبِ وَ کِتَابَۃِ الشُّرُوْطِ، ترجمہ و تشریح محمد داؤد راز، ناشر مرکزی جمیعت اہلحدیث ہند۔ سن طباعت ۲۰۰۴)
مشکوٰۃ المصابیح
’’وَ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ، رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ یَقُوْلَ ’’مَنْ تَعَزَّی بِعَزَاءِ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَّعِضُوْہُ بِھَنِ أَبِیْہِ وَلَا تَکْنُوْا ‘‘رَوَاہُ فِی ’’شَرْحِ السُّنَّۃِ‘‘
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپؐ نے فرمایا، جو شخص جاہلی نسب کی طرف نسبت کرتا ہے (اور فخر کرتا ہے) تو تم اسے کہو کہ اپنے باپ کی شرمگاہ اپنے منہ میں لے لے اور اس میں ہرگز کنایہ نہ کرو۔(شرح السنّہ)‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الآداب بابُ الْمُفَاخَرَۃِ وَالْعَصَبِیَّۃِ جلد چہارم ص۔۱۰۳، ترجمہ و تشریح مولانا محمد صادق خلیل تحقیق و نظر ثانی حافظ ناصر محمود انور فاضل اسلامک یونیورسٹی المدینۃ المنورۃ، ناشر مکتبہ محمدیہ ساہیوال۔ طبع اول جنوری ۲۰۰۵)
بندروں اور سؤروں کے بھائیو! (تفسیر مظہری)
’’محمد بن عمر کی روایت ہے کہ حضرت ابوقتادہ نے فرمایا جب ہم بنی قریظہ پر پہنچے تو ہم نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کولڑائی کا یقین ہوچکا ہے۔ حضرت علی نے قلعہ کی جڑ میں جھنڈا گاڑ دیا۔ ان لوگوں نے اپنی گڑھیوں کے اندر سے ہی گالیوں سے ہمارا استقبال کیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی بیویوں کو گالیاں دینے لگے مگر ہم خاموش رہے اور ہم نے کہہ دیا ہمارا تمہارا فیصلہ تلوار سے ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ بھی پہنچ گئے اور ان کے قلعہ کے قریب بنی قریظہ کے پتھریلے میدان کے نشیبی جانب چاہ اناپر نزول فرمایا۔ حضرت علی نے حضو ر ﷺ کودیکھا تو مجھے حکم دیا کہ میں جھنڈا پکڑ لوں۔میں نے جھنڈا پکڑ لیا۔حضرت علی کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے کان میں ان لوگوں کی گالیاں اور گندے الفاظ پہنچیں۔اس لئے عرض کیا یا رسول اللہ اگر آپ ان خبیثوں کے قریب نہ پہنچیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم مجھے واپس جانے کا مشورہ دے رہے ہو۔میرا خیال ہے کہ تم نے ان سے کچھ گندے الفاظ سن لئے ہیں۔ حضرت علی نے کہ جی ہاں۔فرمایا اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو کچھ بھی اس طرح کی بات نہ کہتے۔ غرض رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے۔آگے آگے اسید بن حضیر تھے۔ اسید نے کہا اے اللہ کے دشمنو جب تک تم بھوکے نہ مرجاؤ گے ہم تمہارے قلعوں سے نہیں ہٹیں گے۔ تم ایسے ہو جیسے بھٹ کے اندر لومڑی۔ بنی قریظہ نے کہا اے ابن حضیر خزرج کے مقابلہ میں ہم نے تم سے معاہدہ کیا تھا۔ حضرت اسید نے کہا اب میرے تمہارے درمیان نہ کوئی معاہدہ باقی ہے اور نہ رشتہ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ یہودیوں کی گڑھی کے قریب پہنچ گئے اور اتنی اونچی آواز سے یہودیوں کے کچھ سرداروں کوپکارا کہ انہوں نے آواز سن لی اور فرمایا اے بندروں اور سؤروں کے بھائیو اور اے بتوں (یا شیطان) کی پرستش کرنے والو جواب دو کیا اللہ نے تم کو رسوا کردیا اور تم پر اپنا عذاب نازل فرمادیا۔ کیا تم مجھے گالیاں دیتے ہو۔ (اندرون حصن سے) ان لوگوں نے قسمیں کھا کر کہا ابوالقاسم ہم نے ایسا نہیں کیا آپ تو جاہل نہیں ہیں۔ دوسری روایت میں جاہل کی جگہ فحش گوکا لفظ آیا ہے۔‘‘(تفسیر مظہری،زیر تفسیر سورۃ الاحزاب آیت۔۲۷)
یہاں تک تو میں نے آپ کو بتایا کہ گالی کی تعریف کیا ہے، کس لفظ کو گالی کہا جاتا ہے کسے نہیں، اور اس کے بعد میں نے بتایا کہ ایسے سخت الفاظ جنہیں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریروں میں پاکر مخالفین انہیں گالیاں کہتے ہیں، وہ الفاظ خود قرآنِ کریم اور احادیث میں بھی موجود ہیں۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ ہمارے مخالفین کے مستند علماء بھی اپنی تحریرات میں ایسے الفاظ و عبارات استعمال کرتے رہے ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کا ایک فرقہ تو خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر تبراء و لعنت کو اپنے دین و ایمان کا جزو اور ایسا کرنا عین عبادت سمجھتا ہے۔فروع کافی جلد ۲ ص ۲۱۶ پر لکھا ہے:
’’فمن احبنا کان نطفۃ العبد و من ابغضنا کان نطفۃ الشیطان‘‘ پس جو ہم سے محبت کرتا ہے وہ عبد یعنی انسان کا نطفہ ہے اور جو ہم سے بغض رکھتا ہے وہ شیطان کا نطفہ ہے
اسی طرح فروع کافی کتاب الروضۃ میں جو کہ جلد۔۳ کا جزو ثانی ہے، لکھا ہے:
’’یا ابا حمزۃ ان الناس کلھم اولاد بغایا ما خلا شیعتنا‘‘ اے ابا حمزہ! تمام انسان اولادِ بغایا ہے سوائے ہمارے شیعوں کے۔
’’اولادِ بغایا ‘‘ کا ذکر آیا تو یہ بتادوں کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر منجملہ دیگر الزامات کے یہ بھی الزام ہے کہ آپ نے اپنے مخالفین کو ’’ذریۃ البغایا‘‘ کہا ہے جس کا ترجمہ مخالفین ، نعوذ باللہ، کنجریوں کی یا رنڈیوں کی اولاد کرتے ہیں حالانکہ نہ تو حضور علیہ السلام نے ایسا مطلب لیا اور نہ ہی جماعت احمدیہ ایسا سمجھتی ہے۔ ایسا محض مخالفت اور تعصب کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک حوالہ تو میں نے ابھی فروعِ کافی سے آپ کے سامنے رکھا اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ اس معنی پر مشتمل الفاظ دیگر مسلمانوں کے لئے استعمال کریں۔اس کا صحیح مطلب ہدایت سے دور اور سرکش لوگ ہے جسا کہ عربی لغت سے ظاہر ہے۔ تاج العروس میں ’’البغایا ‘‘ کا مطلب لکھا ہے ’’ہراول دستہ ‘‘ جو فوج سے پہلے سامنے آتا ہے۔جبکہ ’’ابن بغیہ‘‘ کا مطلب لکھا ہے جو رُشد یعنی ہدایت سے دور ہو۔یہی معنی دوسری مشہور لغت ’’لسان العرب ‘‘ میں لکھے ہیں۔
اس لفظ کی قرآنِ کریم میں ایک مثال ''ضال'' کے استعمال کی ہے۔ قرآنِ کریم میں ایک جگہ تو یہ فرمایا ’’مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی‘‘[53:3] تمہارا ساتھی نہ تو گمراہ ہوا اور نہ ہی نامراد رہا، جبکہ دوسری جگہ فرمایا’’وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی‘‘[93:8] اور تجھے تلاش میں سرگرداں (نہیں) پایا، پس ہدایت دی۔چنانچہ معلوم ہوا کہ الفاظ کے معانی ان کے سیاق و سباق اور اشخاص کی مناسبت سے کئے جاتے ہیں۔
شیعہ کتاب فروع کافی کے بعد سنئے مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی ایک کتاب ’’ھدیۃ الشیعہ ‘‘ کا ایک اقتباس، اور یہ اقتباس سنانے سے پہلے میں یہ بھی بتادوں کہ اس کتاب سے میرے پاس مزید دو ایسے اقتباس ہیں جو نہایت سخت الفاظ پر مشتمل ہیں اور جنہیں یہاں پڑھ کر سنانے کا میں متحمل نہیں ہوسکتا۔ مولانا قاسم نانوتوی صاحب کے یہ الفاظ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُن الفاظ سے کئی درجہ سخت ہیں جنہیں ہمارے مخالفین قابل اعتراض سمجھتے ہیں لیکن اپنے گھر میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ اُن کے علماء کیا کیا کچھ لکھتے رہے ہیں۔
اس اقتباس میں مولانا قاسم نانوتوی صاحب سخت الفاظ استعمال کرنے سے پہلے اپنی صفائی پیش کررہے ہیں اور ان کے استعمال کا سارا لزام فریق مخالف پر ڈال رہے ہیں کہ اُن کی وجہ سے نانوتوی صاحب کو ایسا کرنا پڑرہا ہے۔
ھدیۃ الشیعہ
’’اور اگر بہ نسبت انبیاء و مرسلین یا بزرگان اہل بیت و اصحاب سید المرسلین ﷺ اس رسالہ میں کوئی حرف نامناسب دیکھ کر الجھیں تو مجھے اس سے بری الذمہ سمجھیں ایسا مذکور کہیں کہیں ناچار ہی بغرض الزام شیعہ آگیا ہے اس کا بار انہی کی گردن پر ہے۔ یہ سب انہوں نے ہی کرایا ہے۔خدا شاہد ہے کہ ایسے عقائد سے میں بہزار جان و ہزار زبان بیزار ہوں۔ محبت بزرگان مذکور کو اپنی سعادت اور ان کے حسنِ اعتقاد کو ذریعہ نجات سمجھتا ہوں مگر مردمانِ فہمید سے یوں امید ہے کہ میرے عذر سے پیشتر ہی بشہادت مذہب مجھے معذور سمجھیں۔‘‘ (ص۔۱۱۔ مصنف مولانا محمد قاسم نانوتوی ۔ ناشر نعمانی کتب خانہ حق سڑیٹ اردو بازار لاہور)
اسی نوعیت کی وضاحت ’’اظہار الحق‘‘ کے مصنف مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے بھی کی ہے۔ اس کتاب کے ترجمہ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کی جلد اوّل ص۔۲۳۰ پر لکھا ہے:
’’اگر کسی جگہ میرے قلم سے کوئی ایسا لفظ نکل جائے جو عیسائیوں کی کسی مسلمہ کتاب کی نسبت یا اُن کے کسی پیغمبر کے متعلق بے ادبی اور گستاخی کا شبہ پیدا کرتا ہو تو ناظرین اس کو اُس کتاب کی اس نبیؑ کی نسبت میری بداعتقادی پر محمول نہ فرمائیں، کیونکہ میرے نزدیک خدا کی کسی کتاب یا اس کے کسی پیغمبر کی شان میں بے ادبی کرنا بدترین عیب ہے۔‘‘
اب مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب کی کتاب ھدیۃ الشیعہ کے دو مزید اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
’’اس سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت امیر کا سکوت جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے افعال و حرکات پر تھا یہاں تک کہ غصب فدک دیکھا کئے۔ اپنی بٹی کا نکاح ان سے کردیا اور ان سے بیعت کرلی اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے یہ سب بوجہ حقانیت تھا نہ بوجہ تقیہ ورنہ اس زور اور قدرت اور اس کرامت کا آدمی اور کون تھا جو ان سے اندیشہ یا ہراس رکھتا اور اگر بالفرض یہ زور اور بل اور یہ قدرت خداد کسی میں ہوتی بھی تب غصب دخترطاہرہ مطہرہ تو ہرگز گوارا نہ ہوتا۔ اہل ہند جو تمام ولایتوں کے لوگوں کے نامردہ پن میں امام ہیں ان میں کا بھنگی اور چمار بھی اس سہولت سے بیٹی نہیں دیتا جس طرح حضرت امیر نے اپنی دختر مطہرہ کو حضرت عمر کے حوالہ کردیا۔آپ بھی دیکھتے رہے اور صاحبزادی بھی، پھر صاحبزادوں میں بھی ایک وہ تھے کہ جنہوں نے تیس ہزار فوج جرار کا مقابلہ کیا ھالانکہ وہ زمانہ ضعیفی اور تحمل کا تھا اور بہن کے نکاح کے وقت عین شباب تھا اور تسپر تماشہ یہ ہے کہ ہنگامہ کربلا میں جو دشمنانِ سفاک نے حرم محترم اور زنانِ اہلبیت کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو کیا کچھ غضب اور جوش آیا۔ شیعوں کو تو شہادت نامہ کربلا ازبر ہی ہوگا لکھنے کی کیا حاجت۔‘‘ (ص۔164,165)
’’الحمد للہ کہ مولوی عمار علی صاحب کی تمام افتراپردازیوں کے جواب سے فراغت پائی مگر جو کچھ انہوں نے دربارہ فدک زبان درازیاں اور افتراپردازیاں کیں ہیں اس کی مکافات میں حسب مثل مشہور جیسے کو تیسا اور جواب ترکی بہ ترکی، مناسب تو یوں تھا کہ ہم بھی کچھ نظم و نثر سے پیش آتے اور مولوی صاحب کی مہملات کے جواب میں مولوی صاحب کو بے نقط سناتے۔ مگر چونکہ ایسی خرافات کا بکنا پاجیوں کا کام ہے، ہم کو کیا زیبا ہے کہ ایسی نازیبا باتوں میں مولوی صاحب کے ہمصفیر ہوں اور اپنی زبان کو گندہ کریں اور اہل عقل اور ارباب حیا سے شرمندہ ہوں؟معہذا اصحاب ثلٰثہ کی اہانت کے انتقام میں مولوی عمار علی صاحب سے دست و گریباں ہونا تو ایسا ہی ہے جیسا چاند سورج پر تھوکنے کی سزا میں کتے کو کوئی پتھر لگائے یا آسمان کی طرف تھوکنے کے عوض میں کسی کم عقل ناہنجار کے منھ میں کوئی پیشاب کی دھار لگائے۔ظاہر ہے کہ اول تو چاند سورج کو ان حرکات ناشائستہ سے کیا نقصان؟ بلکہ عقلا کے نزدیک اور دلیل رفعت مکان ہے۔ دوئم کجا شمس و قمر و کجا سگ و کم عقل سگ نزاد؟ مساوات ہو تو ایک بات بھی ہے ورنہ سگ اور سگ مزاجوں کی اتنے میں کچھ عزت نہیں جاتی ہاں البتہ اپنی اوقات فی الجملہ خراب جاتی ہے۔ سو ایسے ہی اصحاب ثلٰثہ کو اول تو مولوی عمار علی صاحب جیسوں کی اہانت یا برا کہنے سے کیا نقصان؟ بلکہ الٹا باعث رفعت شان ہے۔چاند سورج کی طرح وہ روشن ہوئے تو کتے ان پر بھونکے اور اوروں پر کیوں نہ بھونکے۔‘‘(ایضًا ۔ باب مباحث فدک صفحہ۔223)
اب آخر میں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کی جماعتوں پر گالیاں نکالنے اور پچھلے انبیاء کی توہین کرنے کا الزام ہمیشہ سے ان کے مخالفین عائد کرتے آئے ہیں ۔ سیّد الانبیاء حضرت محمد ﷺ اور آپ کے ماننے والوں پر بھی یہی الزام لگایا گیا۔ یہ واقعات اگرچہ سیرت کی تمام کتابوں اور تفاسیر میں درج ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر میں نے چند حوالے منتخب کئے ہیں جو پیشِ خدمت ہیں۔
تفسیر ابن کثیر (زیر آیت 90-93، سورۃ بنی اسرائیل)
’’قریش کے امراء کی آخری کوشش : (آیت ۹۰۔۹۳) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابوسفیان بن حرب اور بنی عبدالدار کے قبیلے کے دو شخص اور ابوالبختری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے یہ سب یا ان میں کچھ سورج کے غروب ہوجانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے’ بھئی کسی کو بھیج کر محمد (ﷺ) کو بلوالو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کرلو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپؐ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپؐ کو یاد کیا ہے۔چونکہ حضور ﷺ کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا، آپؐ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آجائیں۔ اس لئے آپؐ فورًا ہی تشریف لے آئے۔ قریشیوں نے آپؐ کو دیکھتے ہی کہا سنئے آج ہم آپ ؐپر حجت پوری کردیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لئے ہم نے آپؐ کو بلوایا ہے۔واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہوگا جو مصیبت تو نے ہم پر کھڑی کررکھی ہے، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو، ہمارے دین کو برا کہتے ہو، ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بناتے ہو، ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو، تم نے ہم میں تفریق ڈال دی، لڑائیاں کھڑی کردیں۔واللہ آپؐ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔‘‘(زیر آیت ۹۰ تا ۹۳ سورۃ بنی اسرائیل)
سیرت النبی ﷺ ابن ہشام، گالیاں اور حضرت عیسیٰ ؑ کی توہین کا الزام
’’قریش کا وفد: ابن اسحاق کہتے ہیں اور ان کے علاوہ اور بہت لوگ تھے یہ سب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا اے ابوطالب یا تو تم اپنے بھتیجے یعنی حضورؐ کو منع کرو کہ وہ ہمارے بُتوں کو بُرا نہ کہے اور ہمارے باپ دادا کو جاہل اور گمراہ نہ بتائے ورنہ ہم کو اجازت دو کہ ہم خود اس سے سمجھ لیں۔‘‘ (جلد اول ص۔۱۷۰، ناشر ادارہ اسلامیات لاہور، کراچی، پاکستان، طباعت سوم مئی ۱۹۹۸)
’’قریشی سفیروں کی ایک اور ترکیب: ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں عمرو بن عاص جب نجاشی کے پاس سے باہر نکلا تو اس نے کہا خدا کی قسم! میں کل ایسی ترکیب کروں گا جس سے ان لوگوں کا پورا استیصال ہوجائے گا۔ عبداللہ بن ربیعہ جو ایک رحم دل شخص تھا اُس نے کہا ایسا نہ کرنا چاہئے۔کیونکہ پھر آخر یہ لوگ ہمارے رشتہ دار ہیں۔اگرچہ دین میں ہمارے مخالف ہوگئے ہیں تو ہو جائیں مگر ایسا نہ کرنا چاہئے۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ میں کل نجاشی سے ضرور کہوں گا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ بن مریم کی نسبت ایک سخت بات کہتے ہیں۔ چنانچہ دوسرے روز نجاشی سے اس نے یہ بات کہی۔ نجاشی نے صحابہؓ کو طلب کیا تاکہ ان سے دریافت کرے۔‘‘ (جلد اوّل۔ص ۲۱۷، ناشر ادارہ اسلامیات لاہور، کراچی پاکستان طباعت سوم مئی ۱۹۹۸)
سیرت حلبیہ ۔ گالیاں اور حضرت عیسیٰ ؑ کی توہین کا الزام
’’اس کے بعد یہ لوگ ابوطالب کے پاس آئے اور ان سے کہنے لگے۔ ’’ابوطالب! تمہارے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے، ہمارے دین میں عیب نکالے ہیں اور ہمیں بے عقل ٹھہرایا ہے، وہ کہتا ہے ہم میں عقلیں نہیں ہیں۔ اس نے ہمارے باپ دادا تک کو گمراہ کہا ہے۔‘‘ (جلد اول نصف آخر ص۔۲۵۵، مرتب و مترجم مولانا محمد اسلم قاسمی فاضل دیوبند، زیرسرپرستی حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیّب صاحب۔ ناشر دارالاشاعت کراچی۔ مئی ۲۰۰۹ )
’’اس کے اگلے دن عمرو ابن عاص دوبارہ نجاشی کے پاس آئے اور اس سے بولے۔’’یہ لوگ عیسیٰ ؑ کے بارے میں ایک بہت بڑی بات کہتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے ہیں اس کے بیٹے نہیں ہیں۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ عمرو نے نجاشی سے کہا۔’’جہاں پناہ! ان کی کتاب میں عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ مریم کو گالیاں دی گئی ہیں اس کے بارے میں ان سے پوچھئے۔‘‘ (جلد اول نصف آخر ص۔۴۰۶، مرتب و مترجم مولانا محمد اسلم قاسمی فاضل دیوبند، زیرسرپرستی حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیّب صاحب۔ ناشر دارالاشاعت کراچی۔ مئی ۲۰۰۹)
دلچسپ بات یہ ہے جو ہم احمدیوں کے لئے ایمان افروز اور غیر احمدی مسلمان بھائیوں کے لئے نصیحت آموز بلکہ چشم کشا ہونی چاہئے کہ بعینہہ یہی الزامات سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت پر لگائے جاتے ہیں اور اس طرح ہمارے مخالفین خود کو مشرکین مکہ اور مخالفینِ نبی اکرم ﷺ کے مثیل اور سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی اکرم ﷺ کا مثیل اور ان کی جماعت کو صحابہ ؓ کی جماعت کا مثیل بناتے ہیں۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک!
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔