Thursday, January 15, 2015

نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے ؟

ایک ضعیف حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ” نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے“(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الجنائز ۔ باب ذکر وفاتہ ﷺ) اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات لاہور میں ہوئی اور تدفین قادیان میں۔

(i)آنحضرتﷺ نے اس حدیث کونبی کے معیار صداقت کے طور پر پیش نہیں کیا کہ جب تک نبی فوت ہو کر اسی جگہ دفن نہ ہوجائے اس کی صداقت ثابت نہیں ہوتی ۔
اگر اس حدیث کو تمام انبیاء کےمتعلق سمجھا جائے تو تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے کیونکہ
 رُوِیَ أَنَّ یَعْقُوبَ مَاتَ بِمِصْرَ فَحُمِلَ اِلَی اَرْضِ الشَّامِ مِنْ مِصْرَ “
(بحرالرائق شرح کنزالدقائق جلد2صفحہ195 کتاب الجنائز ۔ مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)
کہ روایت ہے حضرت یعقوب  مصر میں فوت ہوئے۔ بعد میں آ پ ارض شام کی طرف اٹھا کر لائے گئے۔ (تاکہ تدفین ارضِ شام میں کی جاسکے)
پس اس سے ثا بت ہو تا ہے کہ تمام انبیاء کے لئے یہ معیار صداقت نہیں کہ وہ جہاں فوت ہوں وہیں دفن ہوں۔
اس حدیث کو درست ماننے کی صرف یہی ایک صورت ہو سکتی ہے کہ یہ مانا جائے کہ حضور ﷺ صرف اپنے متعلق یہ بات بیان فرمارہے ہیں۔
اور یہ تشریح بعد ازقیاس بھی نہیں ہے ۔ایک حدیث ہے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا نَحْنُ مَعْشَرَ الْاَنْبِیَاءِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ مَاتَرَکْنَاہُ صَدَقَةٌ 
                                                                                    (بخاری کتاب المغازی حدیث بنی نضیر)
یعنی ہم انبیاء کا گروہ ہیں نہ ہم وارث بنتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث بنتا ہے جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔جبکہ قرآن کریم میں ہے کہ وَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاودَ “ (النمل:17) کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے وارث ہوئے۔بظاہر پیدا ہونے والے اس اختلاف کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا قول دور کرتا ہے  کہ یُرِیْدُ بِذَالِکَ نَفْسَہُ (بخاری کتاب المغازی حدیث بنی نضیر) کہ اس مذکورہ حدیث میں آنحضور ﷺ کی خاص ذات مراد ہے۔
(ii)معترضین حضور ﷺ کی ایک دوسری حدیث بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ ” یُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ “(مشکوٰۃ کتاب الفتن باب نزول ِ عیسٰی علیہ السلام ) کہ مسیح موعود میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوگا۔
اگراس حدیث کے بھی صرف ظاہری معنی کئے جائیں تو کون غیرت مند مسلمان آنحضرت ﷺ کی قبر اکھیڑنے کی جرأت کرے گا؟ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قبر کے قریب ہوں گے کیونکہ حدیث کے الفاظ ”فِیْ قَبْرِیْ “بتاتے ہیں کہ حضور ﷺ کی قبر میں ہی تدفین ضروری ہے ۔ اگر قریب فوت ہوئے اور پھر لاکر حضور ﷺ کی قبر میں دفن کیا گیا تو علماء ظواہر پھر چھاتی پیٹیں گے اور فتاوی کفر لگائیں گے کہ یہ سچا نہیں کیونکہ فوت اُس جگہ ہوا اور دفن اِس جگہ ہو رہا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔