دنیا کی تمام زبانوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے کے لئے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس لفظ سے مختلف ہوتا ہے جو اُس دوسری جگہ جاکر دوبارہ پہلی جگہ آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اگر ایک شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک سفر کرے تواُردو زبان میں اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا کہتے ہیں۔لیکن اگر وہی شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک پہنچ کر دوبارہ نقطہ الف تک آئے تو اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا نہیں بلکہ واپس آنے والا کہتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کو ’’نزول ‘‘ جبکہ دوسرے مقام سے لوٹ کر پہلے مقام تک آنے کو ’’رجوع ‘‘ کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اور اب قُربِ قیامت میں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے۔ زبان و بیان کے مذکورہ بالا قواعد کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان سے زمین پر آمد کو اُردو زبان میں ’’واپسی‘‘ اور عربی زبان میں ’’رجوع ‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا جانا چاہئےتھا۔ لیکن اس کے برعکس احادیثِ نبوی میں جس جگہ بھی مسیؑح ابن مریم ؑ کی قربِ قیامت میں آمد کی خبر دی گئی ہے وہاں ’’رجوع ‘‘ کی بجائے ’’نزول ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر محض آ نہیں رہے بلکہ واپس آرہے ہیں کیونکہ وہ آسمان پر زمین سے ہی گئے تھے۔
ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاکر پھر اُسی مقام پر آنے کو رجوع یعنی واپسی کہنے کے قاعدہ کا ثبوت یوں تو عربی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کی لاتعداد مثالوں سے دیا جاسکتا ہے لیکن اسی نوعیت کی ایک مثال سے یہ بات نہ صرف زبان و بیان کے قواعد اور اُن کے استعمال بلکہ دینی پہلو سے بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے،جیسا کہ حضرت عمرؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر یہ نہیں کہہ رہے کہ رسول اللہ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی طرح اپنے رب سے ملنے گئے ہیں اور پھر نازل ہوں گے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اُسی طرح واپس آئیں گے جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تھے:
’’ان رجالا من المنافقین یزعمون أن رسول اللّٰہ ﷺ قد توفي، و ان رسول اللّٰہ ما مات، ولکنہ ذھب الی ربہ کما ذھب موسی بن عمران، فقد غاب عن قومہ أربعین لیلۃ، ثم رجع الیھم بعد أن قیل مات، وواللّٰہ لیرجعن رسول اللّٰہ ﷺ کما رجع موسی، فلیقطعن أیدي رجال و أرجلھم زعموا أن رسول اللّٰہ ﷺ مات۔‘‘(السیرۃ النبویۃ لأبن أسحٰق جلد 1-2، ص۔713، السیرۃ النبویہ لأبن ہشّام جلد۔ 4، ص۔306)
منافقوں میں سے کچھ لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے ہیں۔حالانکہ وہ مرے نہیں بلکہ وہ اپنے رب کی طرف گئے ہیں جیسا کہ موسیٰ بن عمران گئے تھے۔پس وہ اپنی قوم سے چالیس راتیں غائب رہے تھے پھر ان کی طرف واپس آگئے تھے پھر اس کے بعد مرے تھے۔ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ بھی ضرور واپس آئیں گے جس طرح موسیٰ واپس آئے تھے۔اور ضرور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ مرگئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے (اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ ) (دیکھ ہم کس طرح نشانات کو پھیر پھیر کربیان کرتے ہیں تاکہ وہ کسی طرح سمجھ جائیں۔الانعام۔6:66)۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی وفاتِ مسیؑح کا مسئلہ مختلف پہلوؤں سے کھول کھول کر بیان فرمایا تاکہ کسی طرح لوگ اسے سمجھ جائیں۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، انسانی بول چال میں کسی جگہ جانے اور پھر وہاں سے واپس آنے کے لئے جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، اُن کی روشنی میں حضور ؑ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو اس طرح ثابت فرمایا ہے:
’’حضرت مسیؑح کی آمد کے واسطے جو لفظ آیا ہے وہ نزول ہے اور رجُوع نہیں ہے۔ اوّل تو واپس آنے والے کی نسبت جو لفظ آتا ہے وہ رجُوع ہے اور رجُوع کا لفظ حضرت عیسٰیؑ کی نسبت کہیں نہیں بولا گیا۔دوم نزول کے معنے آسمان سے آنے کے نہیں ہیں۔ نزیل مسافر کو کہتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول ص:۵۔ تاریخ اشاعت 20 اگست1960 ء)
ایک اور مقام پر سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’أتظنون أنَّ المسیح ابن مریم سیرجع الی الأرض مِن السّماء؟ ولا تجدون لفظ الرجوع فی کَلِمِ سیّد الرسل و أفضل الأنبیاء۔ أَ أُلْھِمْتم بھذا أو تنحِتون لفظ الرجوع مِن عند أنفسِکم کَالخَائینین؟ وَمِنَ الْمَعلُوم أن ھٰذا ھُو اللفظ الخَاص الذی یُستعمل لرَجُل یأتی بَعْد الذَّھاب۔ و یتوجّہ السَّفر الی الایاب، فھذا أبعدُ مِن أبلَغِ الْخَلقِ و امام الأنبیاء أن یترک ھٰھنا لفظ الرجوع و یَسْتَعْمل لفظ النزول ولا یتکلم کالفصحاء والبلغاء‘‘(مکتوب احمد، روحانی خزائن جلد۔11، ص۔150, 151)
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ المسیؑح ابن مریم آسمان سے زمین پر واپس آئیں گے؟ حالانکہ سیّدالرسل ؐ اور افضل الانبیاء ؐ کے کلام میں رجوع کا لفظ پایا ہی نہیں جاتا۔ کیا تمہیں یہ الہام ہوا ہے یا خیانت کرنے والوں کی طرح تم نے اس لفظ رجوع کو اپنے نفس سے گھڑ لیا ہے؟ اور معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لفظ خاص طور پر اُس شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو سفر کے بعد واپس آئے۔ پس یہ تمام مخلوقات میں سب سے فصیح و بلیغ شخص اور امام الانبیاء ؐ سے بعید ترین ہے کہ وہ رجوع کا لفظ ترک کرکے نزول کا لفظ استعمال کریں اور فصیح و بلیغ لوگوں کی طرح کلام نہ کریں۔
قرآن و حدیث اور علمائے سلف و خلف کے بہت سے حوالہ جات کے ساتھ زبان و بیان کے اس پہلو سے بھی یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس زمین پر دوبارہ تشریف نہیں لائیں گے کیونکہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو ان کے لئے ’’نزول ‘‘ کی بجائے ’’رجوع ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔